زرعی قوانین کے استحصال کا انداز

   

سچن پائیلٹ
تین زرعی قوانین ۔ اشیائے ضروریہ (ترمیم) قانون، زرعی پیداوار کی فروخت کی کمیٹی (اے پی ایم سی) ضمنی قانون، کاشتکاروں (بااختیاری و تحفظ) معاہدہ برائے یقینی قیمت اور زرعی خدمات قانون ۔ نے ملک گیر سطح پر کاشتکاروں کو مایوس کیا ہے۔ قوانین کی سخت دفعات سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ ان کے سفر کی تفصیل بیان کروں۔ کوئی بامعنی مشاورت، مباحث یا راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں حاصل کی گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوریت کی قانون سازی کتنی پست سطح پر پہنچ گئی ہے۔ قوانین بے مثال ناجائز قبضہ گیری برائے ریاستی حقوق کے نمائندہ ہیں۔ زراعت ایک ریاستی موضوع ہے اس کی طمانیت دستور ہند میں دی گئی ہے۔
حکومت نے ای قومی زرعی بازار (e-NAM) 2016 میں متعارف کروایا تھا تاکہ مسائل کی یکسوئی ہوسکے جو موجودہ نظام کی کوتاہیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ مختلف اے پی ایم سی قوانین مختلف ریاستوں میں نافذ کئے گئے۔
مئی تک حکومت کو یقین تھا کہ وہ زیادہ منڈیاں e-NAM میں شامل کرسکے گی۔ تاہم یہ بازار اچھی ساخت کا نہیں تھا اور ریاستوں سے اس کی منظوری سے پہلے مشاورت نہیں کی گئی تھی۔ اس لئے صرف مجوزہ 6900 اے پی ایم سی میں سے جو e-NAM کی جانے والی تھیں صرف ایک ہزار قائم کی جاسکیں۔ نتیجہ یہ کہ حکومت نے کاشتکاروں کی آمدنی دگنی کردینے کی جو بڑی بات کہی تھی اور انہیں زیادہ امدادی قیمتوں کا پیشکش کیا تھا، بے نقاب ہوگیا۔ درست انداز میں ڈیجیٹل ذریعہ سے نفاذ کے نتیجہ میں کاشتکاروں کی بہتر شرائط ہوتیں۔ اے پی ایم سی کا ذیلی قانون کا راستہ اختیار کرنے سے یہ صحتمند کوشش جس کے ذریعہ ڈیجیٹل ٹکنالوجی ان کو سکھائی جاسکتی تھی اور متحدہ زرعی بازار کی سمت پیشرفت کی جاسکتی تھی، اس سے حکومت قاصر رہی۔
اس کی یکسوئی لاگتوں کا بوجھ بڑے کارپوریٹ خریداروں پر ٹکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے منتقل کیا جاسکتا تھا اور ریاستوں کے مالی طریقہ کار کو غیر موثر ان کی قیمت پر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس سے اے پی ایم سیز کو مقامی کردار محفوظ رکھنے کا موقع ملتا۔ انہیں چھوٹے اور اوسط کاشتکاروں کو اجتماعی سودے بازی کا اور اہم معلومات کے باہمی تبادلہ کا موقع مل سکتا تھا۔ ضمنی قانون چند بڑے کاشتکاروں کے لئے جو صارفین کو اپنے حق میں قاعدوں اور شرائط کی قبولیت پر مجبور کرسکتے ہیں۔ بڑی تعداد میں صارفین خریداری کی قیمت عقل ترین چاہتے ہیں۔ وہ بڑے کاشتکاروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح ایک علیحدہ ماحولیاتی نظام تشکیل پاتا ہے جو صارفین علاقوں میں تقسیم ہیں اور بڑے کاشتکار ان کے درمیان سازگار فضاء محسوس کرتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر سختی سے سودے بازی اور شرائط کا کھلم کھلا تعین کرسکتے ہیں، حالانکہ یہ عوام سے پوشیدہ ہوتا ہے۔
نگرانکار کی عدم موجودگی میں خریداروں کی ذات پات اور کم تر شرائط برائے کاشتکار پیش نظر رکھے جاتے ہیں جن کا انسداد ہوسکتا ہے۔ مسابقت مخالف اور استحصال کا اثر قوانین پر مرتب ہوا جس کا تجزیہ نہیں کیا گیا۔ عقل ترین امدادی قیمت کے لئے معقول قیمتوں سے غیر منظم بازار وجود میں آئے جن میں کاشتکار نقصان میں رہے۔ بے شمار مثالیں دنیا بھر میں خانگیانے کی موجود ہیں کہ ایک ’’نادیدہ ہاتھ‘‘ جو نگرانکار کا ہے ضروری ہوتا ہے تاکہ کم از کم سودے بازی کی طاقت فراہم کرنے کے لئے تائیدی شرائط کو یقینی بنایا جاسکے، قوانین میں اس کا فقدان ہے اور حقیقی شکایات نظام کی ازسرنو تشکیل کے لئے پیدا ہوگئی ہیں۔

زرعی شعبہ زیادہ غریب ہوگیا ہے اور غیر متوازن انفرا اسٹرکچر اور بازاروں تک رسائی کا موقع موجود ہے درحقیقت صرف بہت کم بازار موجود ہیں۔ قومی کمیشن برائے کاشتکاران کے بموجب کاشتکاروں کو ذخیرہ کرنے کی بہت کم سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ہر 80 مربع کیلو میٹر کے لئے ایک بازار ہونا چاہئے لیکن صرف 435 مربع کیلو میٹر کے رقبہ پر کاشتکاری کے لئے ذخیرہ اندوزی کی سہولتوں میں بہت کم حصہ فراہم کیا جاتا ہے۔ زرعی ۔ متعلقہ سہولتیں جیسے انفرااسٹرکچر کا سرد سلسلہ اور قابل انحصار زمروں میں تقسیم اور دیگر سہولتیں دستیاب ہیں۔ تجارت کرنے اور پسندیدہ فائدہ حاصل کرنے کو خانگیانے کی وجہ سے نیم شہری اور تعلیم یافتہ کاشتکاروں کی بہتر انفرااسٹرکچر تک رسائی موجود ہے۔ حالانکہ یہاں پر جن باتوں کا سلسلہ وار تذکرہ کیا گیا ہے۔ اب بھی ان کا اطلاق جاری ہے صرف اہم مثال بڑے پیمانے پر تجربہ کرنے کی ہے اور اس کے لئے اے پی ایم سیز کو برخواست کرنا ہوگا جو بہار میں موجود ہیں جو اے پی ایم سی قانون 2006 میں موجود ہیں۔

ریاست میں تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اب کسانوں کے طریقہ کار میں تھوڑی سی تبدیلی آگئی ہے اس لئے وہ اپنی پیداوار اس طریقہ کو اختیار کرنے سے پہلے اور بعد میں عمل پیرا ہوگئے ہیں۔ چھوٹے کاشتکار اب بھی ناگوار شرائط پر تاجروں کو فروخت کرتے ہیں۔ حالانکہ منتقلی کی سہولتیں دستیاب ہیں۔ کسی بھی صورتحال میں بڑے پیمانے پر کارکردگی کی تبدیلی اور شرائط کی تبدیلی جس کے ساتھ قانون ریاستوں میں نافذ کیا گیا ہے بین ریاستی تقابل کو بے معنی بنادیتی ہیں۔
یہ قوانین کاشتکار دشمن حکومت کا موقف کا رخ موڑ دیتے ہیں۔ چھوٹے اور نظرانداز کردہ کاشکار زرعی برادری کا 86 فیصد حصہ ہیں اور ان میں سے 50 فیصد فصل کی پیداوار میں اپنا حصہ ادا کرتے ہیں۔ یہ اکثریت ٹھوس رکاوٹوں کا بازاروں سے ربط پیدا کرنے میں سامنا کرتی ہے اور قوانین ان کو راحت رسانی نہیں کرتے، منظم طور پر حکومت کو چاہئے کہ سرمایہ کاری کرے۔ ٹکنالوجی اور معلومات کے ذریعہ کم رقبہ کی زمین کے کاشتکاروں کو فائدہ پہنچائے۔

انفرا اسٹرکچر کی عدم موجودگی کی صورت میں چھوٹے اور بیشتر اوسط زمرہ کے کاشتکار اپنا حصہ مقامی تاجروں کے ساتھ ادا نہیں کریں گے۔ اے پی ایم سیز کو نظرانداز کردینے سے اور بھی زیادہ منفی اثر کاشتکاروں پر مرتب ہوگا۔ معلومات سے قیمت طے کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور دیہاتوں میں قرضوں کے بوجھ سے پریشان کاشتکاروں کی حالت اور بھی ابتر ہو جاتی ہے۔ قومی مثالی سروے کے دفتر کے بموجب ایک کاشتکار گھرانہ سمجھا جاتا ہے کہ 630 فیصد انتہائی قرضہ 2013 میں اپنے اثاثہ جات کے تناسب کے اعتبار سے حاصل کرچکا ہے، جبکہ 1992 میں ہی قرض ان کے اثاثہ جات کے تناسب میں نہیں تھا۔ گزشتہ 6 سال سے صورتحال اور بھی ابتر ہو گئی ہے۔

نوٹوں کی تنسیخ سے اس کا آغاز ہوا تھا جو زرعی تحقیق کی تائید سے دستبرداری تک چلا آرہا ہے۔ اس طرح بین الاقوامی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں انتہائی کمی پیدا ہوئی ہے۔ حکمت عملی میں خلل اندازی کی وجہ کووڈ ۔ 19 وباء بھی ہے جو دنیا بھر کو متاثر کررہی ہے اور اے پی ایم سیز کو غیر مفید بننے پر مجبور کررہی ہے۔ امکان ہے کہ لاکھوں کسانوں پر اس کا منفی اثر مرتب ہوگا اور وہ بے انتہا غربت کا شکار ہو جائیں گے۔ منافع کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔ آمدنی میں وسعت پیدا نہیں ہوگی۔ اس میں دولت پر نظر نہیں رکھی جاسکے گی اور سماجی بے چینی بڑھ جائے گی۔ ان وجوہات سے ہم کو یقین ہو جائے گا کہ زرعی پیداوار کی فروخت اور خریداری کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس کے لئے تفصیلی مشاورت کی ضرورت ہے۔ بیشتر کسانوں کے ساتھ اور ان کی تنظیموں کے ساتھ مشاورت کی جانی چاہئے۔ ریاستی حکومتوں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا اور انہیں زرعی شعبہ کا تجربہ فراہم کرنا ہوگا جو کہیں زیادہ وسیع کئی اقسام کا اور مرکزی حکومت کے لئے بے چینی کی وجہ نہ بن سکے۔