سائے کی بھیک مانگ رہے ہیں ببول سے

   

کورونا … ان لاک … موت کا کنواں
پارلیمنٹ … کھیل ختم … پیسہ ہضم

رشیدالدین
چاہے سونے کے فریم میں جڑدو، آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ آئینہ کا کام حقائق کا عکس روشن کرنا ہوتا ہے اور اس خصوصیت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ان دنوں مرکز کی نریندر مودی حکومت کورونا کی صورتحال کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ وہ دور اب باقی نہیں رہا جب حکومت کی ہر بات کو آنکھ بند کر کے تسلیم کرلیا جائے۔ ٹکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو ہر شخص کی مٹھی میں کردیا ہے ۔ پل بھر میں دنیا کے کونے کونے کے خبر یں پہنچ جاتی ہیں۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ٹکنالوجی کی ترقی نے خبررسانی اور اطلاعات کے معاملہ میں حکومت کی حیثیت ثانوی نوعیت کی کردی ہے۔ کسی بھی واقعہ کے سلسلہ میں حقائق کی پردہ پوشی ممکن نہیں ہے ۔ اطلاعات کا تبادلہ اور ترسیل اب حکومت کی پابند نہیں رہی۔ داخلی سلامتی اور سرحد پر کشیدگی جیسے معاملات میں بھی حکومت کے لئے حقائق کے اظہار سے گریز ممکن نہیں رہا۔ گزشتہ دنوں لداخ میں ہندوستانی علاقہ پر چین کے قبضہ کے بارے میں وزیراعظم اور وزیر دفاع تردید کرتے رہے لیکن ٹکنالوجی تک عوام کی رسائی نے حقائق کو بے نقاب کردیا اور آخر کار حکومت کو سچائی تسلیم کرنی پڑی۔

یہ جانتے ہوئے بھی حقائق سے منہ موڑا نہیں جاسکتا۔ مودی حکومت کورونا وائرس کے حالات کے بارے میں عوام کو خوش فہمی کا شکار رکھنے کوشاں ہے۔ ملک میںکورونا صورتحال کی سنگینی سے ہر کوئی واقف ہے۔ لاک ڈاون کے خاتمہ کے بعد تو ہندوستان کورونا کے قہر کا اہم مرکز بن چکا ہے ۔ 7 ریاستوں میں حالات دن بہ دن ابتر ہورہے ہیں جبکہ دیگر ریاستوں میں بھی کیسس اور اموات کی تعداد میں اضافہ درج کیا جارہا ہے لیکن حکومت ہے کہ ابھی پتھر کے دور میں دکھائی دے رہی ہے ۔ کورونا کے بارے میں سرکاری اداروں کا رویہ دیکھ کر 25 تا 30 سال قبل کے حالات ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں۔ ٹکنالوجی سے محروم دور میں جب کبھی فسادات یا کسی تباہی کی خبر دینی ہوتی تو سرکاری میڈیا پہلے حالات کے قابو میں ہونے اور امن کا دعویٰ کرتا پھر دبی آواز میں ہلاکتوں اور کرفیو کے نفاذ کا ذکر کیا جاتا۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے کہ جب ہلاکتیں اور کرفیو ہے تو پھر صورتحال کو پرامن اور قابو میں کس طرح کہا جاسکتا ہے لیکن سرکاری میڈیا تباہی سے زیادہ امن کی بات کر کے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ فسادات ، لڑائی جھگڑے معاملات میں اس طریقہ کار کو ملک اور حالات کے مفاد میں درست مان لیا جائے تو کوئی عجب نہیں لیکن وباء اور امراض کے معاملہ میں حقائق کی پردہ پوشی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ حکومت کا یہ رویہ سراسر عوام کی بد خدمتی ہے۔ کورونا جیسی سنگین اور مہلک وباء جس کی دوائی ایجاد نہیں ہوئی، اس سے متعلق گمراہ کن اطلاعات کو عام کرتے ہوئے سچائی کو چھپانا دراصل عوام کو موت کے منہ میں ڈھکیلنا ہے۔ حکومت گزشتہ تین ماہ سے اس جرم کا ارتکاب کر رہی ہے۔

دراصل اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کیلئے عوامی زندگی سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ کورونا کی تباہ کاریوں کی جگہ قوم کو خوش اور مطمئن کرنے معمولی صحت یابی کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا جارہا ہے۔ اس طرح کا پروپگنڈہ بھولے بھالے اور معصوم عوام کو احتیاطی تدابیر سے غافل بنارہا ہے جس کے نتیجہ میں وہ وائرس کا بآسانی شکار ہورہے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے صحت یابی کی شرح کی کچھ یوں تشہیر ہورہی ہے جیسے کورونا پر قابو پالیا گیا۔ اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو پھر روزانہ 80,000 تا 1,00,000 نئے کیسس اور ایک ہزار سے زائد اموات کا روزانہ واقع ہونا آخر کس بات کی علامت ہے۔ کورونا کے معاملہ میں ہندوستان دنیا میں نمبر ون پوزیشن کی دوڑ میں ہے ۔ کیسس کی تعداد 57 لاکھ سے تجاوز کر گئی اور اموات ایک لاکھ تک پہنچ گئیں۔ غیر سرکاری سطح پر حکومت کے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ متاثرین اور اموات کا علم ہوا ہے۔ سابق صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کورونا کے سبب فوت ہوگئے ۔ مرکزی مملکتی وزیر ریلویز سریش انگاڑی کووڈ کا شکار ہوکر لقمہ اجل بننے والے پہلے مرکزی وزیر ہیں۔ ملک میں تین ارکان پارلیمنٹ اور 6 ارکان اسمبلی کورونا کے سبب فوت ہوگئے ۔ موجودہ وقت کے بی جے پی آئرن میان امیت شاہ بھی کورونا سے بچ نہ سکے اور آج تک بھی مکمل صحت یاب نہیں ہوئے ہیں۔ کورونا سے روزانہ کسی نہ کسی اہم شخصیتوں کے متاثر ہونے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ بعض ریاستوں کے چیف منسٹرس ، وزراء ، ارکان مقننہ اور اعلیٰ عہدیدار بھی کورونا سے متاثر ہوئے اور صحت یاب ہوئے۔

کئی فلمی شخصیتوں کو کورونا نے اپنا شکار بنایا۔ کیسس اور اموات میں اضافہ کے باوجود ان لاک کے نام پر عوام کے لئے موت کا کنواں کھول دیا گیا ۔ حکومت جان بوجھ کر عوام کو موت کے منہ میں ڈھکیل رہی ہے جو کہ آئی پی سی کے تحت غیر ارادی قتل شمار ہوتا ہے۔ جس وقت کیسس کم تھے، سخت لاک ڈاون نافذ کیا گیا لیکن کورونا قہر عروج پر ہونے کے باوجود ان لاک کا عمل جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کو اپنے وزیر اور ارکان پارلیمنٹ کی موت کا افسوس نہ ہو تو پھر عام آدمی اُن کے لئے کیڑے مکوڑوں کی طرح دھرتی پر بوجھ ہیں۔ مرکز اور ریاستوں کی سطح پر حکومتوں کا رویہ کچھ اسی طرح کا ہے۔ حکومت لاک دعوے کرلیں لیکن بین الاقوامی سطح پر دنیا ہندوستان کو کورونا کے معاملہ میں کلین چٹ دینے تیار نہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ سعودی عرب کی جانب سے ہندوستانی فلائٹس پر پابندی کے فیصلہ سے ہوتا ہے۔ دنیا ہندوستان کو کس نظریہ سے دیکھ رہی ہے ، اس کا اندازہ سعودی عرب کے فیصلہ سے کیا جاسکتا ہے ۔ فٹنس ڈے اور یوگا ڈے پر نریندر مودی کچھ زیادہ ہی متحرک ہوجاتے ہیں لیکن گزشتہ 6 ماہ میں حکومت کو کورونا پر قابو پانے میں ناکامی ہوئی۔ ان لاک کے نام پر معصوموں کی زندگی سے کھلواڑ کا سلسلہ آخر کب ختم ہوگا ؟

مثل مشہور ہے کہ ’’کھیل ختم پیسہ ہضم ‘‘۔ کچھ اسی طرح پارلیمنٹ کا مانسون سیشن منعقد ہوا۔ تلنگانہ اسمبلی اور کونسل کا بھی مانسون سیشن پارلیمنٹ کی طرح مقررہ وقت سے قبل ہی ملتوی کردے گیا۔ کورونا کے حالات میں پہلے تو اجلاس طلب کرنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے تھی لیکن حکومت کو سرکاری کام کاج یعنی مختلف بلز کی منظوری میں عجلت تھی اور یہ کام پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مکمل کرلیا گیا ۔ کئی متنازعہ قوانین کو منظوری دی گئی جن میں خاص طور پر زرعی قانون ہے جس کے خلاف ملک بھر میں احتجاج جاری ہے۔ حکومت لوک سبھا میں عددی طاقت کی بنیاد پر بل کو منظور کرچکی لیکن راجیہ سبھا میں یہ ممکن نہیں تھا۔ حکومت کی کئی حلیف جماعتوں میں بل کے خلاف آواز بلند کی لیکن جمہوری اور ایوان کے قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے بل کو منظوری دے دی گئی ۔ طریقہ کار کے مطابق اپوزیشن کے مطالبہ پر بل کے حق میں ووٹنگ کی جانی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ کرسیٔ صدارت پر موجود نائب صدر نشین راجیہ سبھا پر حکومت کا دباؤ تھا لہذا انہوں نے اپوزیشن کی ایک نہیں سنی اور بل کی منظوری کا اعلان کردیا۔ راجیہ سبھا جسے ایوان بالا اور بزرگوں کا ایوان کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں قابل اور تجربہ کار سیاستداں ہوتے ہیں لیکن ایوان کی روایات کو حکومت نے پامال کردیا۔ جس طرح علحدہ تلنگانہ کا بل ایوان کے دروازہ بند کر کے اور لائیو ٹیلی کاسٹ روک کر منظور کیا گیا تھا ، ٹھیک اسی طرح اگریکلچر بل کو طرفہ منظوری دے دی گئی۔ 8 دن قبل ہی دونوں ایوانوں کو ملتوی کرتے ہوئے حکومت نے واضح کردیا کہ اسے عوامی مسائل سے زیادہ بلز کی منظوری سے دلچسپی تھی۔ مرکزی حکومت اور بی جے پی کی ساری توجہ بہار کے الیکشن پر مرکوز ہوچکی ہے۔
جب بہار میں الیکشن ہوسکتا ہے تو پھر سرحدی ریاست جموں و کشمیر میں کیوں نہیں ؟ حکومت وادی میں نارمل حالات کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن اس دعویٰ کی تصدیق صرف انتخابات سے ممکن ہے۔ کشمیر میں جمہوریت کی بحالی اور آزادانہ انتخابات کے ذریعہ حکومت ثابت کرے کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور عوام حکومت کے ساتھ ہے۔ کشمیر کا چناؤ دفعہ 370 کی برخواستگی ، کشمیر کو ریاست کا درجہ ختم کرتے ہوئے تین علاقوں میں تقسیم کرنے کے فیصلہ پر ریفرنڈم ثابت ہوگا۔ انتخابات کے ذریعہ حکومت بین الاقوامی فورم میں پاکستان کا منہ بند کرسکتی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ جس پارٹی کے ساتھ کشمیر میں حکومت قائم کی گئی تھی، اس کی سربراہ محبوبہ مفتی آج بھی محروس ہیں۔ خواتین کے حقوق کے دعویدار نریندر مودی کشمیر کی خاتون عوامی قائد کو رہا کرنے تیار نہیں ہیں۔ کیا یہی کشمیر میں نارمل صورتحال ہے ؟ مشہور شاعر ساقی امروہی نے کیا خوب کہا ہے ؎
واقف نہیں جو لوگ سفر کے اصول سے
سائے کی بھیک مانگ رہے ہیں ببول سے