سانحۂ کربلا میں حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا عملی کردار

   

سید محمد عبد الرؤف حسنی الحسینی
سانحۂ کربلا کی تاریخ شاہد ہے کہ بانی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے گھرانے کے بعض پھول بن کھلے کس طرح تیروں اور تلواروں کے سائے میں مُرجھا گئے اور دنیا کے محسنِ اعظمﷺ کے خاندان کو وقت کے درندہ صفت انسانوں نے کس بے دردی سے میدانِ کربلا میں شہید کیا۔ تقریباً ۱۴صدیاں گزرنے کے بعد بھی ہم ان مقدس شہدائے کرام کی یاد مناتے ہیں اور ان کی بارگاہ میں حسب حیثیت گلہائے عقیدت پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیرہ اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ تھیں۔ آپ کی ولادت باسعادت ہجرت کے چھٹے سال مدینہ منورہ میں ہوئی۔ کوفہ کی جانب روانگی اور میدانِ کربلاکے سفر میں آپ حضرت امام عالی مقام کے ساتھ رہیں۔ جب تک حضرت امام عالی مقام باحیات رہے، حضرت سیدہ زینب ایک اطاعت گزار بہن کی حیثیت سے ان کے اشارے کی منتظر رہتیں اور اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا کہ اسلام میں ایک اطاعت گزار بہن کا کیا کردار ہوتا ہے۔حضرت سیدنا امام حسین ؓکی زندگی میں قافلۂ اہل بیت کے نظم و ضبط کی ذمہ داری آپ کے سر نہ تھی، مگر حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دُوربیں نظریں مسلسل ان خطرات کا احاطہ کرتی رہیں، جو حضرت امام عالی مقام اور اہل بیت کے ارد گرد منڈلا رہے تھے۔ اس عظیم المرتبت بہن کے واقعہ کو مشہور مصنف عمر ابونصر نے ان کے احساس فرض کے واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’۹؍ محرم الحرام کو ابن سعد چند مسلح آدمی لے کر حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خیمہ کی طرف بڑھا۔ اس وقت خیمہ میں حضرت امام عالی مقام گھٹنوں پر سر رکھ کر آرام فرما رہے تھے۔ حضرت سیدہ زینب ؓنے شور سن کر آپ کو فوراً بیدار کیا اور خطرے سے باخبر کیا‘‘۔

حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے احساس ذمہ داری کا دوسرا واقعہ خود حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ اس رات کو جس کی صبح میرے والد بزرگوار حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوئے، میں سخت بیمار تھا۔ میری پھوپھی حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا خیمہ میں تمام رات میری تیمارداری میں مشغول رہیں۔ اس وقت خیمہ میں میرے والد بزرگوار یہ بات کہہ رہے تھے کہ ’’اے زمانہ! تو کیسا بے وفا دوست ہے، صبح و شام تیرے ہاتھوں کتنے لوگ مارے جاتے ہیں‘‘۔حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے استقامت اور بلند حوصلہ کی داد دینی ہوگی کہ آپ اپنے عزیزوں کی نعشوں کو، جو شہید ہوچکے تھے یا زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے، ایک ایک کرکے اپنی سپردگی میں لے رہی تھیں۔ ابھی ایک مقتول کو زمین پر رکھا جاتا تھا کہ دوسری نعش ان کے قریب پہنچ جاتی تھی۔ آپؓ کے جذبۂ استقامت کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کے گرد بیٹوں اور بھتیجوں کی جواں سال نعشیں رکھی ہوئی تھیں اور آپؓ سراپا صبر کا پیکر بنی ہوئی تھیں۔

سانحۂ کربلا کے بعد حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا قافلۂ اہل بیت کی سربراہ تھیں، جو حضرت امام عالی مقام کی شہادت کے دو دن بعد عمرو بن سعد کے ساتھ کربلا سے کوفہ روانہ ہوا تھا۔ جب آپؓ اس دارالامارت کے قریب پہنچیں، جہاں آپؓ نے والد گرامی امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کے عہد خلافت میں زندگی کے بہترین دن گزارے تھے، تو والد بزرگوار کی جگہ عبید اللہ بن زیاد کو بیٹھا دیکھا۔ اس وقت آپؓ معمولی اور بوسیدہ لباس زیب تن کئے ہوئے تھیں، مگر ابن زیاد کے سامنے پُروقار اور پُرجلال انداز میں پیش ہوئیں، جو آپؓ کے عظیم کردار کا ایک حصہ ہے۔ تاریخ ابن کامل میں لکھا ہے کہ دورانِ گفتگو ابن زیاد حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذہانت سے خوش ہونے کی بجائے سخت برہم ہو گیا اور آپؓ کے قتل کا حکم دیا۔ اس وقت حضرت سیدہ زینبؓ نے ابن زیاد کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اے ابن زیاد! خاندانِ اہل بیت کا خون پی کر کیا اب بھی تو سیر نہیں ہوا‘‘۔ آپؓ نے حضرت امام زین العابدین کو گلے لگاتے ہوئے فرمایا: ’’میں اپنے اس بھتیجے کو اس وقت تک نہیں چھوڑوں گی، جب تک کہ اس کے ساتھ مجھے بھی نہ قتل کردے‘‘۔ حق گوئی میں حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنا جواب آپ تھیں۔ آپؓ نے ظالم و جابر حاکم کے سامنے کلمۂ حق کے علاوہ اہل کوفہ کو جس انداز میں اُن کے بھیانک کردار اور اس کے انجام سے آگاہ کیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اہلِ بیت کا قافلہ جب کوفہ میں داخل ہوا تو لوگوں کے رونے اور چیخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ اس وقت آپؓ نے انھیں خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے کوفہ والو! تمہارا رونا کبھی ختم نہ ہو، تمہاری مثال اس عورت کی طرح ہے، جو رسی کو مضبوطی سے بانٹتی تھی اور اس کو خود ہی توڑدیتی تھی، اسی طرح تم نے بھی اپنے عہد کو توڑا ہے‘‘۔ حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا عملی کردار آج کے لادینی دَور میں ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لئے نمونۂ عمل اور راہِ نجات ہے۔ اللہ رب العزت ہماری ماؤں بہنوں کو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے نقش قدم پر چلنے