سحر اور افطار کی اہمیت

   

مرسل : ابوزہیر نظامی

وقت سحر کے بعد کھانے پینے سے پرہیز کرو
وقتِ افطار سے پہلے روزہ نہ کھولو

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ’’سحری کھاؤ کہ سحری کھانے میں برکت ہے‘‘ ۔ (بخاری و مسلم )
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کے چند لقمے ہیں‘‘ ۔ (مسلم شریف)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر درود بھیجتے ہیں‘‘ ۔ (طبرانی شریف)
حضرت سہیل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ’’لوگ بھلائی میں رہیں گے ، جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے‘‘ ۔
(بخاری و مسلم)
حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرنے لگے تو چھوہارے سے افطار کرے کہ یہ برکت ہے ۔ پھر اگر چھوہارا نہ ملے تو پانی سے افطار کرے کہ یہ پاک کرنے والا ہے ۔ (احمد ، ترمذی)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پہلے چند تر کھجوروں سے افطار فرماتے تھے ۔ اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں تو خشک چھوہاروں سے ۔ اگر چھوہارے بھی نہ ہوتے تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے ۔
(ترمذی و ابوداؤد )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی امید سے روزہ رکھے گا تو اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جو ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں قیام یعنی عبادت کرے گا تو اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جو ایمان کے ساتھ ثواب حاصل کرنے کی غرض سے شب قدر میں قیام کرے گا اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ‘‘ ۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص (روزہ رکھ کر) بری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا ترک نہ کرے تو خدائے تعالی کو اس کی پروا نہیں کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے (بخاری) اس حدیث شریف کے تحت حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’روزہ قبول نہ ہوگا اس لئے کہ روزہ کے مشروع اور واجب کرنے کا مقصد یہی بھوک اور پیاس نہیں ہے ، بلکہ لذتوں کی خواہشات کا توڑنا اور خود غرضی کی آگ کو بجھانا مقصود ہے ، تاکہ نفس خواہشات کی جانب راغب ہونے کی بجائے حکم الہی پر چلنے والا ہوجائے ۔ (اشعۃ اللمعات)