سروے‘ پچاس فیصد پولیس والوں کا یہ احساس ہے مسلمان فطری طو رپر جرم کے عادی ہوتے ہیں

,

   

یہ بھی پایا گیا ہے کہ سروے کے دوران جن پولیس اہلکاروں سے انٹرویو کیاگیا ان میں 35فیصد یہ مانتے ہیں کہ گاؤ ذبیحہ کے معاملات میں ”خاطیوں“ کو ہجوم کے ہاتھ سزا بھی فطری بات ہے اور43فیصدمانتے ہیں کہ عصمت ریزی کے کسی ملزم کو ہجوم کے ہاتھوں سزا بھی فطری چیز ہے

نئی دہلی۔ دو میں سے ایک پولیس والے کا سروے میں یہ احساس ہے کہ مسلمان ارتکاب جرم کے لئے”فطری طورپر عادی“ ہوتے ہیں‘ یہ بات پولسنگ ان انڈیا کی اسٹیٹس رپورٹ 2019میں سامنے ائی ہے

۔یہ بھی پایا گیا ہے کہ سروے کے دوران جن پولیس اہلکاروں سے انٹرویو کیاگیا ان میں 35فیصد یہ مانتے ہیں کہ گاؤ ذبیحہ کے معاملات میں ”خاطیوں“ کو ہجوم کے ہاتھ سزا بھی فطری بات ہے اور43فیصدمانتے ہیں کہ عصمت ریزی کے کسی ملزم کو ہجوم کے ہاتھوں سزا بھی فطری چیز ہے۔

پولیس کی اہلیت اور کام کے حالات پر مشتمل یہ رپورٹ این جی او کامن کاز اینڈ لوکنیتی پروگرام نے تیار کی جو سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی کے تحت کام کرتی ہے اور رپورٹ کی اجرائی منگل کے روز سابق سپریم کورٹ جج جسٹس چلامیشوار کے ہاتھوں عمل میں ائی۔

ملک کی 21ریاستوں میں یہ سروے کیاگیا ہے جس میں 12,000پولیس اہلکار جوپولیس اسٹیشنوں میں ہیں اور11,000ان کے فیملی ممبرس کو شامل کیاگیا۔

سروے میں اس بات کی بھی جانکاری ملی ہے کہ 37فیصد اہلکار جن کا انٹرویو کیاگیا ہے ان کا ماننا ہے کہ معمولی نوعیت کے جرائم پر سزا قانونی کاروائی کے بجائے پولیس پر چھور دینا چاہئے۔

اس میں یہ بھی بات سامنے ائی ہے کہ 72فیصد پولیس اہلکاروں کو ”سیاسی دباؤ“ کا سامنا بااثر لوگوں کے ملوث ہونے والے معاملات کی تحقیقات کے دوران پیش آیاہے۔جسٹس چلامیشوار نے کہاکہ ”ایک فرض شناس افیسر تمام تبدیلیاں لاسکتا ہے۔ مگر ایسے افیسر کو متعین کون کرے گا“۔

انہوں نے قانون سے بالاتر ہوکر اٹھائے جانے والے پولیس اقدامات کا بھی ذکر کیاجو ان کے جج کی معیاد کے دوران ان کے سامنے پیش ائے تھے۔انہوں نے کہاکہ ”کیا تربیت ہم اپنے افسران کو دیتے ہیں؟ایک چھ ماہ کا سیول او رکریمنٹ عمل کے کوڈ کا کورس‘ ائی پی سی اور ایوڈنس ایکٹ کافی نہیں ہے“۔

پولیس اہلکارو ں کوسیاسی دباؤ سے باہر نکالنے کے متعلق بات کرتے ہوئے ریٹائرڈ جج نے کہاکہ ”سزا کے طور پر کسی ایک کا تبادلہ ایک مسئلہ ہے۔یہاں تک کے جج جس کا عہدہ دستوری ہے وہ بھی اس تبادلہ کے عمل سے بچ نہیں پائے ہیں“۔

پچھلے سال اکٹوبر میں دہلی ہائی کورٹ نے اپنے بڑے فیصلے میں جو ہاشم پورہ قتل عام پر تھا پولیس کی اہلیت اور کام کے حالات پر مشتمل کی رپورٹ برائے2018سے جوڑا تا جس میں مسلمانوں کے خلاف ادارہ جاتی پولیس کی یکطرفہ کاروائی کا ذکر کیاگیاتھا‘ اس واقعہ میں 1987میں 16پولیس جوانوں نے 42مسلمانوں کو ہلاک کردیاتھا۔

مذکورہ سنوائی کرنے والی عدالت نے پولیس اہلکاروں کو محرک کی عدم دستیابی کی وجہہ سے بری کردیاتھا