سر سید احمد خاں کی فکر و شخصیت پر مولانا الطاف حسین حالیؔ کا اثر

   

خیرالنساء علیم
سر سید احمد خاں انیسویں صدی کی ایسی عبقری شخصیت کا نام ہے جن کی بدولت ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت ، ذہن و فکر اور ان کے علم و ادب میں زبردست انقلاب آیا ۔ غور کیجئے 1857 ء کے حالات ہندوستانی مسلمانوں کیلئے قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھے ۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی اور مرکزی حکومت یعنی مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہوچکا تھا ۔ مسلمانوں سے جاگیریں، عہدے اور مناصب چھین لئے گئے تھے ۔ مسلمان انگریزوں کی نظر میں سب سے بڑے مجرم تھے۔ چنانچہ اس وقت اہل ہند میں انگریزوں کے سب سے ز یادہ معتوب و مقہور ہندوستانی مسلمان تھے ۔ ایسے مایوس کن اور پر آشوب دور میں ایک مرد اٹھتا ہے اور سوتوں کو جگانے اور جاگتوں کو دوڑانے کی سعی مشکور کرتا ہے۔ اس شخص کا اسم گرامی سید احمد خاں ہے۔
سر سید احمد خاں نہایت ہی ذہین و فطین اور دور اندیش مدبر و مفکر اور سچے مصلح قوم تھے ۔ انہوں نے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کا خاتمہ کرنے کیلئے سب سے اہم کام یہ کیا کہ مسلمان جدید علوم و فنون اور انگریزی تعلیم حاصل کر یں ۔ اس کے لئے انہوں نے ایک منظم اور زبردست تحریک شروع کی جو تاریخ میں ’’علیگڑھ تحریک کے نام سے مشہور ہوئی ۔ اس تحریک نے ہندوستانی مسلمانوں کی فکر و نظر کی تبدیلی میں انتہائی اہم رول ادا کیا ۔ تعلیم و تربیت ، زبان و ادب ، تہذیب و ثقافت مذہب و صحافت اور تاریخ و تحقیق ، غرض ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس پر اس تحریک نے دور رس اثرات مرسم نہ کئے ہوں۔
سر سید احمد خاں کی یوں تو تمام خدمات مفید ، کارآمد ، قابل فخر ، لائق تحسین و ستائش اور یادگار ہیں لیکن ان میں تعلیمی ، اصلاحی خدمات سب سے زیادہ عظیم الشان ہیں۔ ان سب کیلئے سر سید نے جو کوشش کیں وہ یقیناً آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ وہ نباض وقت تھے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے اعلیٰ درجے کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی غرض سے انگلستان کے تعلیمی اداروں کا معائنہ کرنے کیلئے سر سید انگلستان گئے اور باریک بینی سے وہاں کی تعلیمی سرگرمیوں اور تعلیمی اداروں کا جائزہ لیا ۔ ہندوستان واپس آکر ’’ محمڈن اینگلو اورینٹل ‘‘ کالج کی بنیاد ڈالی ۔ جو آج علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ’’ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ نامی ایک تعلیمی ادارہ بھی قائم کیا ۔ تعلیمی نسواں کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا جس سے ہندوستانی خواتین کے لئے تعلیمی ماحول سازگار ہوا ۔
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سر سید احمد خاں کے قیمتی خوابوں کی ایک تعبیر ہے ۔ سر سید بغاوت ہند کے بعد مسلمانوں کی مذہبی ، سیاسی ، معاشی اور ثقافتی زبوں حالی سے بہت متاثر ہوئے ۔ دوسری طرف عیسائی مشنریوں ، مذموم سازشوں اور سرگرمیوں کا عینی مشاہدہ کیا ۔ ان کا حساس دل بے قرار ہو اٹھا اور پھر وہ کوئی گوشۂ عافیت اختیار نہ کرسکے ۔

بلا شبہ سر سید یہ چاہتے تھے کہ میری قوم کے نوجوان علم و حکمت کی ثریا پر کمندیں ڈالیں اور وہ تمام قسم کے علوم و فنون سے اپنے آپ کو آراستہ کر لیں تاکہ آسمان دنیا میں درخشاں ستارے بن کر چمکیں ۔ وہ اس عروج و بلندی کو ایمان و اسلام کی بیش بہا دولت سے مشروط قرار دیتے ہیں۔
’’اے میرے عزیزو ! میری یہ آرزو ہے کہ میں اپنی قوم کے بچوں کو آسمان کے تاروں سے اونچا اور سورج کی طرح چمکتا ہوا دیکھوں۔ ان کی روشنی اس نیلے نیلے گنبد کے اندر ایسے پھیلے کہ سورج اور چاند ستارے سب اس کے آگے ماند ہوجائیں۔ پس میں چاہتا ہوں کہ میرے تمام بچے ، طالب علم جو کالجوں میں پڑھتے ہیں ، جن کیلئے میری آرزو ہے کہ وہ یوروپ کے سائنس اور لٹریچر میں کامل ہوں اور تمام دنیا میں اعلیٰ شمار کئے جاویں۔ ان دو الفاظ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ‘‘۔ (اقتباس خطبات سر سید ص 74 ، 1973-75 ء)
’’سعدی ہند‘‘ شمس العلماء مولانا خواجہ الطاف حسین حالی ایک ایسے مصلح قوم اور خطیب تھے جو اپنی قوم کو ذلت سے نکالنے کی ہر ممکن سعی اور کوشش کرتے رہے ۔ مولانا حالی کی تصانیف مثنویاں ، مسدس حالی ، شکوہ ہند ، چپ کی داد ، مناجات بیوہ، دولت اور وقت کا مناظرہ ، نشاط امید ، مجموعہ نظم حالی اور مجموعہ نظم فارسی ہیں۔ مولانا حالی کی ان تصانیف کا سر سیداحمد کی شخصیت پر بہت اثر ہوا ۔ مسدس حالی مولانا الطاف حسین حالی کی بے مثل اور معرکہ آراء تصنیف جسے روز اول سے ہی مقبولیت حاصل رہی ۔ مسدس حالی سے ہی ہندوستان میں قومی شاعری کی بنیاد پڑی ہے ۔ سر سید احمد خاں کہتے تھے کہ مسدس حالی نے صنف نظم میں ایک نیا دور پیدا کردیا جس میں مسلمانوں کی گزشتہ عظمت کے کارنامے اور موجودہ پستی کا ذکر ایسے انداز میں کیا گیا ہے کہ پتھر دل انسان بھی موم ہوجاتا ہے ۔ انہوں نے اہل ہند کے مسلمانوں سے عاجزانہ درخواست کی ہے کہ وہ اٹھیں اور بیدار ہوکر انتھک کوششوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں ۔ سوسائٹی میں اعلیٰ مرتبہ حاصل کریں۔ اپنی کھوئی ہوئی توقیر و عظمت کو بحال کریں۔

مولانا حالیؔ اردو ادب میں نہایت بلند اور ممتاز مقام رکھتے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے غزل اور قصیدے میں نیا رنگ اختیار کیا ۔ سیاسی اور قومی نظمیں لکھیں ۔ خواجہ الطاف حسین حالیؔ ایک اعلیٰ پائے کے نثر نگار بھی تھے ۔ ان کی تصانیف نثر حسب ذ یل ہیں۔ یادگار غالب ، حیات جاوید ، تریاق مسموم ، علم طبقات الارض ، مجالس النساء ، حیات سعدی ، مضامین حالی: ’’حیات جاوید میں سر سید احمد خاں کی سوانح بیان کی گئی ہے۔ مسدس حالی کے چند بند پیش خدمت ہیں :
اس قدر عمر دو روزہ پہ نہ مغرور تھے ہم
عیش و عشرت کے طلسموں بہت دور تھے ہم
کسی محنت سے مشقت سے نہ معذور تھے ہم
آپ ہی راج تھے اور آپ ہی مزدور تھے ہم
تھے غلام آپ ہی اور آپ ہی آقا رہے
خود ہی بیمار تھے اور خود ہی مسیحا اپنے
خود نمائی ، خود آرائی کا کچھ دھیان نہ تھا
کبر و پندار کا جاری کہیں فرمان نہ تھا
’’سر سید احمد خاں کی شخصیت و فن فکر پر حالی کی شاعری ، نثر نگاری نے بھی بہت اثر ڈالا ہے ۔ سر سید کے اس خط سے بھی اس بات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ لکھتے ہیں :
مسدس حالی جس وقت میرے ہاتھ میں آئی ، جب تک ختم نہ ہوئی ہاتھ سے نہ چھوٹی اور جب ختم ہوئی تو افسوس ہوا کہ کیوں ختم ہوگئی ۔ کس صفائی ، خوبی اور روانی سے یہ نظم تحریر ہوئی ہے ۔ بیان سے باہر ہے ۔ تعجب ہوتا ہے کہ ایسا واقعی مضمون جو مبالغہ ، جھوٹ ، تشبیہات ، دور ازکار سے ، جو مایہ ناز شعر و شاعری ہے ۔ بالکل مبرا ہے کیونکہ ایسی خوبی و خوش بیانی اور موثر طریقہ پر ادا ہوا ہے ۔ متعدد بند اس میں ایسے ہیں جو بے چشم نم نہیں پڑھے جاسکتے ۔ حق ہے ! جو بات دل سے نکلتی ہے ، اثر رکھتی ہے ، نثر بھی بہت عمدہ اور نئے ڈھنگ کی ہے ۔ میری نسبت جو اشارہ اس میں ہے ، اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بے شک میں اس نظم کا محرک ہوا اور اس کو میں اپنے ان اعمال حسنہ میں سے سمجھتا ہوں کہ جب قیامت میں خدا مجھ سے پو چھے گا کہ ’’تو کیا اعمال لایا ‘‘ میں کہوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا لایا ہوں، اور کچھ نہیں ۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے اور قوم کو اس سے فائدہ پہنچے ‘‘۔
مسدس حالی سے چند اشعار :
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آکے جس کا گھرا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہل کشتی
پڑے ہوتے ہیں بے خبر اہل کشتی
نہ افسوس انہیں اپنی ذات پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
مشقت کو محنت کو جو عار سمجھیں
ہنر اور پیسے کو جو عار سمجھیں
تجارت کو کھیتی کو دشوار سمجھیں
فرنگی کے پیسے کو مردار سمجھیں
تن آسانیاں چاہیں اور آبرو بھی
وہ قوم آج ڈوبے گی گر کل نہ ڈوبی
خوش قسمتی سے دلی آنے کے بعد حالی کی ملاقات سید احمد خاں سے ہوئی ، جس کے دل میں قوم کا درد تھا جو مسلمانوں کا سچا ہمدرد تھا ۔ یہ وہ مرد بزرگ دانا ہے جس نے مسلمانوں کی ڈوبتی کشتی کو پار لگایا تھا ۔ حالی ان کی سیرت اور بلند خیالات سے بہت متاثر ہوئے اور دل و جان سے سر سید کے ساتھ ہوگئے ۔ سر سید کے دل میں مسلم قوم کا درد بہت تھا ۔ وہ قوم کی خواہشوں اور آرزوؤں کو پورا کرنے میں لگے رہتے تھے ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو تعلیم کی رغبت دلائی ۔ اس کی اہمیت سمجھائی تاکہ وہ پستی سے باہر نکل سکیں۔ چنانچہ سر سید نے اس مقصد کی تکمیل کیلئے 1875 ء میں علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا جو بعد میں ترقی کر کے ’’علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ‘‘ بن گیا ۔

حالی کی شخصیت ایسی تھی جس نے سر سید کے دکھ کو سمجھا اور ان کے بلند حوصلوں پر مرہم رکھا ۔ انہوں نے مسلم قوم کو پستی سے باہر نکالنے کا ذریعہ تلاش کرلیا ۔ سر سید نے حالی سے قوم کو بیدار کرنے کیلئے ایک نظم لکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔ چنانچہ حالی نے قومی جذبے سے سرشار ہوکر قوم کو بیدار کرنے کیلئے ایک طویل نظم لکھی جو مسدس حالی کے نام سے مشہور ہوئی ۔ ایک سچے اور مخلص شاعر کے دل کی آواز کو درد آشنا انسانوں نے سمجھا اور ان کے ہمت و حوصلہ کی داد دی ۔ سر سید نے جب اس نظم کو پڑھا تو ان کے دل پر گہرا اثر ہوا ۔ انہوں نے بڑے د لکش انداز میں حالی کے اس غیر فانی کارنامے کی داد دی ۔ زبان سادہ سلیس اور دل نشین ہے ۔ اس نظم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے بہت سے بند ایسے ہیں جو بغیر چشم نم پڑھے نہیں جاسکتے ۔ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی اس کی مقبولیت کی بڑی وجہ اس کی حقیقت نگاری ہے ۔
حالی کا یہ مسدس سر سید کی تحریک کا ایک جز ہے ۔ سر سید کی تحریک بڑی ہمہ گیر اصلاحی تحریک تھی ، مذہب ، معاشرت، تعلیم ، شعر و ادب ، انشاء اور صحافت سب اسی کے حلقہ میں آتے تھے ۔ سر سید کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمان نئے بدلے ہوئے حالات کا مقابلہ کرسکیں۔ ان میں جدید ت علیم اور روشن خیالی پھیلائی جائے ۔ پرانے رسم و رواج ، بے ہودہ تقلید اور روایت پرستی کی بیخ کنی کی جائے ۔ اخلاق سدھارا جائے ۔ قوم اور قومیت کا تصور پیدا کیا جائے ۔ قومی عزت اور عزت نفس کی تعلیم دی جائے ۔ سر سید کی ایسی ہمہ گیر تحریک میں ان کے بہت سے شریک کار اور رفیق شامل تھے ۔ انہیں میں ایک حالی بھی تھے ۔ مسدس حالی ایک اصلاحی نظم ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو ان کے ما ضی اور حال کی داستانیں سناکر ترقی کے راستے پر چلنے کیلئے آمادہ کرنا تھا ۔
سرسید، حالی کی ان نظموں پر جو مثنویوں کی ہئیت میں پیش ہوئی تھیں، ریویو کرتے ہوئے تہذیب الاخلاق 1292 ھ میں لکھتے ہیں:
’’مولوی خو اجہ الطاف حسین حالی کی مثنویوں نے تو ہما رے دلوں کے حال کو بدل دیا ہے ، ان کی مثنوی ’’حب الوطنی‘‘ اور مثنوی’’مناظرہ رحم و انصاف‘‘ جو پنجابی اخبار میں چھپی ہے درحقیقت ہمارے علم و ادب کا ایک کارنامہ ہے ۔ ان کے الفاظ کی سادگی ، بیان کی صفائی ، عمدگی خیال ہمارے دلوں کو بے اختیار کھینچتی ہے ۔ الفاظ کی ترکیب میں سادگی کیسی عمدہ ، عمدہ ہیں کہ دل میں اتر جاتی ہیں‘‘۔ حالی کی یہی سیرت اور شاعری کا سر سید احمد خاں کے فکر و فن اور شخصیت پر بڑا گہرا اثر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔
سر سید خاں نے جو انیسویں صدی کے نصف آخر میں ہندوستان کے سب سے بڑے مدبر تھے 1857 ء کے ہنگامے کے بعد تمدن کے بکھر ے ہوئے اجزاء کو ’’قومیت‘‘ یا ’’ملیت‘‘ کی تحریک میں سمیٹنے کی کوشش شروع کی ۔ سر سید کی ذات میں حالی کو وہ رہنما مل گیا جو قوم کے تصور میں وہ منزل مقصود اور قومی تعلیم کی تحریک میں وہ راہ عمل نظر آگئی جس کی انہیں تلاش تھی ۔ اس عزم کا پہلا نتیجہ مدو جزر اسلام تھا جو سر سید کی فرمائش سے 1879 ء میں لکھا گیا ۔ اس میں شعر حالی کے دوسرے دور کی کل خصوصیات موجود ہیں۔ تھوڑی سی مدت میں یہ نظم ملک کے اطراف میں پھیل گئی ۔ لوگ اس کو پڑھ کر بے اختیار روتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں۔ حالی کی سیرت اور شاعری ہر قدم پر ان کی رہنمائی کرتی ہے اور زبانِ حال سے یہ کہہ رہی ہے ۔
نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے