سمیر خاں کو فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کیا گیا تھا،16 سال بعد انکشاف

,

   

مودی کے بحیثیت چیف منسٹر گجرات دورمیں تمام 17 اِنکاؤنٹرس فرضی تھے، پولیس افسران کیخلاف مقدمہ درج کرنے اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ کی سفارش

چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے ریٹائرڈ جسٹس بیدی کی
حقائق پر مبنی رپورٹ کو ویب سائٹ پر پیش کرنے کا حکم دیا

احمدآباد۔ 12جنوری (سیاست ڈاٹ کام) گجرات کی بی جے پی حکومت کو ایک اور زبردست دھکہ لگا جب سپریم کورٹ کے ایک سابق جج ایچ ایس بیدی نے رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ 2002ء کے دوران ایک نوجوان سمیر خاں کو پولیس نے فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کیا تھا۔ اس رپورٹ سے فرضی انکاؤنٹرس کے معاملے میں وزیراعظم نریندر مودی کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے کیونکہ گجرات میں چیف منسٹر کی حیثیت سے ان (مودی) کی حکمرانی کے دوران 17 بڑے انکاؤنٹرس ہوئے تھے جو تمام کے تمام فرقہ انکاؤنٹرس ثابت ہوئے ہیں۔ جسٹس بیدی کی رپورٹ کے مطابق گجرات پولیس نے 16 سال قبل سمیر خاں کو ایک فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کیا تھا۔ انہوں نے سمیر خاں کی ہلاکت کو ’’پولیس تحویل میں موت ‘قرار دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق گجرات پولیس ٹیم نے 2002ء میں ایک نوجوان کو گولی مارکر ہلاک کردیا تھا۔ بعدازاں ایک بوڑھے باپ سرفراز خاں نے شناخت کی کہ یہ کوئی دہشت گرد نہیں بلکہ اس کا رکشا راں بیٹا سمیر تھا، لیکن پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ 2002ء میں اکشر دھام مندر حملے کے بعد اس وقت کے ریاستی چیف منسٹر نریندر مودی کو ہلاک کرنے کیلئے پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیم جیش محمد نے سمیر کو روانہ کیا تھا،

تاہم دوران تحقیقات مودی، دیگر اعلیٰ عوامی خدمت گذاروں یا سینئر پولیس افسران کے خلاف کسی حملے کی سازش کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہوا۔ سمیر خاں کا کیس گجرات میں مودی کے بحیثیت چیف منسٹر دور حکمرانی میں ہوئے فرضی انکاؤنٹر کا 17 واقعات میں سب سے بڑا تھا جو جسٹس بیدی کی طرف سے فروری 2018ء کے افراد میں سپریم کورٹ میں پیش کردہ 229 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ کا حصہ ہے۔ سربہ مہر لفافہ میں بند اس اہم رپورٹ کو بدقسمتی سے سپریم کورٹ کے تہہ خانہ کے کمروں میں چھپا دیا گیا تھا تاہم چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی زیرقیادت ایک بنچ نے حکومت گجرات کے احتجاج کے باوجود اپنی ویب سائیٹ پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ گجرات میں 2002ء اور 2006ء کے دوران جب نریندر مودی چیف منسٹر تھے، 17 انکاؤنٹرس ہوئے اور یہ تمام فرضی انکاؤنٹرس ثابت ہوئے۔ جسٹس ایچ ایس بیدی نے انکاؤنٹرس کے کیس میں بعض متعلقہ پولیس افسران کے خلاف مقدمات چلانے اور مہلوکین کے متاثرین کے خاندان کو فی کس10 لاکھ روپئے تا 14 لاکھ روپئے بطور معاوضہ ادا کرنے کی سفارش کی ہے۔ ان تین کیسوں میں سمیر کے علاوہ 2005ء میں ممبئی کے اسمگلر حاجی حاجی اسمعیل اور جعفر کی ہلاکتیں بھی شامل ہیں ۔ جسٹس بیدی نے جعفر کے خاندان کو 14 لاکھ روپئے معاوضہ دینے کی سفارش کی ہے۔ انہوں نے پولیس کے اس دعویٰ کو قبول کرنے سے بھی انکار کردیا کہ سمیر 1996ء کے دوران گلے سے طلائی چین اُڑانے کے ایک واقعہ میں ایک پولیس ملازم کو ہلاک کرنے کے بعد مدھیہ پردیش سے حاصل کردہ جعلی پاسپورٹ پر پاکستان چلا گیا تھا جہاں کراچی، لاہور جیسے مقامات پر اس نے جیش محمد سے تربیت حاصل کی اور انٹر سرویس انٹلیجنس کی مدد سے براہ نیپال، ہندوستان میں داخل ہوا تھا۔ مودی کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری دیئے جانے سے قبل اس نے ممبئی، راجکوٹ اور بھوپال میں ’خفیہ ٹھکانے‘ قائم کیا تھا۔ جسٹس بیدی نے پولیس کے اس دعویٰ کو مسترد کردیا اور کہا کہ خود پولیس کی طرف سے پیش کردہ ثبوتوں سے میرے اس نظریہ کو مزید تقویت ملتی ہے کہ متوفی (سمیر ) کی موت ایک فرضی انکاؤنٹر کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پولیس تحویل میں ہلاکت ہوئی۔ جج نے سمیر کے بوڑھے باپ سرفراز خاں کے ان 16 سال کے دوران اذیت و اضطراب کے تکلیف دہ سفر کا تفصیلی حوالہ دیا، کیونکہ پولیس کی جانب سے سرفراز کو احمدآباد میونسپل کارپوریشن میں ڈرائیور کی حیثیت سے 30 سالہ ملازمت سے بھی محروم ہونا پڑا تھا۔