شادی کے لئے مسلم بوائے فرینڈ کی عورت نے چھپائی شناخت‘ لوجہاد“ کے معاملے میں دولہا گیا جیل۔یوپی

,

   

پریا نے فیصلہ کرلیاکہ وہ توفیق کے راہل کے طور پر متعارف کروائی گئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے گھر والے رضا مند نہیں ہوں گے


سیول سرویس کے دو امیدوار 29سالہ پریا ورما اور32سالہ توفیق کی پچھلے ماہ لکھنو میں شادی ہوئی تھی۔ ہندو رواج سے شادی کرنے سے قبل مذکورہ جوڑا دوسالو ں تک تعلقات میں رہا ہے۔

مگر اب توفیق کو ایک مسلمان ہے ریاست کے سخت ”لوجہاد“ قوانین کے تحت جیل میں ہے کیونکہ اس نے ”مجرمانہ طور پر اپنی مذہبی شناخت کو چھپایا“ ایک ہندو لڑکی سے شادی کرنے کے لئے خود کو ہندو کے طور پر پیش کیاتھا۔

مذکورہ عورت کے فیملی والوں کو توفیق کی مسلم شناخت کی اس وقت جانکاری ملی جب یوپی میں ان کے آبائی شہر کے کچھ مقامی لوگوں نے فیس بک شادی کی تصویریں دیکھنے کے بعد اس بات کی جانکاری دی تھی۔

ابتداء میں بعض میڈیارپورٹس میں یہ کہاگیاکہ توفیق نے پریا سے شادی کرنے لئے اس سے جھوٹ بولا تھا۔

عورت کے والد کی جانب سے درج ایف ائی آر میں اس بات کاذکر کیاگیاہے کہ گھر والوں کو ”غلط باوار“ کرایاگیاتھا اور عورت شادی کرنے کے لئے ”رضامند“ تھی۔

پریا نے پولیس اور مجسٹریٹ کے سامنے بھی توفیق کے خلاف گواہی دی ہے۔ بی جے پی قائدین او رکارکنان پولیس اسٹیشن پہنچ کر انصاف کا مطالبہ کیا۔ ٹی او ائی سے بات کرتے ہوئے بی جے پی کے ضلع صدر جیتو تیواری نے کہاکہ ”یہ صاف طور پر لوجہاد کا معاملہ ہے۔

کوتوالی پولیس اسٹیشن پر اس ضمن میں ہم نے احتجاج کیاتھا۔ ہندو لڑکیوں کی سازی کرتے ہوئے مسلم نوجوان ان کا مذہب تبدیل کرارہے ہیں“۔

مگر کہانی میں اب ایک نیا موڑ آرہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مذکورہ عورت توفیق کی شناخت سے واقف تھی اور اس نے شناخت مسلم لڑکے سے شادی کے لئے چھپائی تھی۔

دی پرنٹ میں شائع رپورٹ کے بموجب وہ توفیق کی مذہبی شناخت سے واقف تھی اور اس کو مقدمہ درج کرانے کے لئے دباؤ ڈالاگیاتھا۔

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پریا نے فیصلہ کرلیاکہ وہ توفیق کے راہل کے طور پر متعارف کروائی گئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے گھر والے رضا مند نہیں ہوں گے۔

پریا نے کہاکہ ”اس نے کبھی بھی مجھے اپنا مذہب تبدیل کرنے کے لئے نہیں کہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ہندو بننے کے لئے بھی تیارہوگیاتھا۔

ہم نے ہندو رواج سے شادی کی تھی‘ کیایہ ثبوت کافی نہیں ہے؟“۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ فی الحال وہ گھر پر ہے اور والدین کی جانب سے دوبارہ شادی کی کوششوں کو روک رہی ہے“