شہر کو مرکزی زیر انتظام علاقہ یا مشترکہ صدر مقام کا مطالبہ کرنے والے بی جے پی میں شامل

,

   

……: حیدرآباد کا مستقبل :……
حیدرآباد کے موقف کو تبدیل کئے جانے کی تردید پر شبہات، آرٹیکل 35A کو ہٹائے جانے کی گورنر جموں و کشمیر نے بھی تردید کی تھی

حیدرآباد۔21اگسٹ(سیاست نیوز) ’’ہم بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہر طرح سے مدد کرنے تیار ہیں لیکن حیدرآباد کے موقف کو نہ چھیڑا جائے‘‘ مرکزی حکومت کی جانب سے شہر حیدرآباد کے سلسلہ میں اختیار کئے جانے والے موقف پر سیاسی جماعتیں الجھن کا شکار ہوتی جا رہی ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے اپنے خفیہ تعلقات کو مزید مستحکم کرتے ہوئے انہیں تقویت دینے اور بی جے پی کی مدد کے لئے تیار ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں نہیں چاہتی کہ حیدرآباد کے موقف میں کوئی تبدیلی لائی جائے۔ شہر حیدرآباد کو ملک کے دوسرے دارالحکومت یا مرکزی زیر انتظام علاقہ بنائے جانے کے منصوبہ کی مرکزی حکومت کی جانب سے تردید کی جانے لگی ہے لیکن ماہرین کا کہناہے کہ جموں و کشمیر سے 370 کی برخواستگی کے لئے بھی لمحۂ آخر تک یہی کہا گیا اور اس بات کی تردید کی جاتی رہی بلکہ خود گورنر جموں و کشمیر نے آرٹیکل 370کی برخواستگی کی اطلاعات کو افواہ قرار دیا تھا لیکن جب یہ فیصلہ کیا گیا تو راجیہ سبھا کو جو اطلاع فراہم کی گئی اس میں کہا گیا کہ جموں و کشمیر میں موجود حکومت کی جانب سے موصولہ سفارش کی بنیاد پر یہ اقدام کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں اس وقت صدر راج نافذ تھا اور خود گورنر نے حکومت کو سفارش کی تھی اوریہ وہی گورنر ہیں جنہوں نے دو یوم قبل کہا تھا کہ آرٹیکل 370 یا 35A کی تنسیخ کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔حیدرآباد کے موقف کی تبدیلی کے سلسلہ میں جواطلاعات گشت کررہی ہیں ان اطلاعات کے درمیان ریاست آندھرا پردیش کے وزیر مسٹر بوتسہ ستیہ نارائنہ کی جانب سے آندھرا پردیش کے دارالحکومت امرواتی کے مستقل کے متعلق یہ کہا جانا کہ حکومت آندھرا پردیش امراوتی کو دارالحکومت برقرار رکھنے کے متعلق از سر نو غور کر رہی ان اطلاعات کی توثیق کے مترادف ہے کہ تقسیم آندھرا پردیش کے بل میں ترمیم کی گنجائش سے آندھراپردیش بھی فائدہ اٹھانے کی فکر میں ہے۔ تقسیم آندھرا پردیش سے قبل مرکزی حکومت سے کی گئی نمائندگیوں میں حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ یا دونوں ریاستوں کے مشترکہ صدر مقام کے طور پر رکھے جانے کی نمائندگیاں کی جاچکی ہیں اور جن لوگوں نے یہ نمائندگیاں کی تھیں ان میں آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے بیشتر سیاستداں اب بھارتیہ جنتا پارٹی کا حصہ بن چکے ہیں

اور تلنگانہ میں جن قائدین نے حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنانے یا پھر مشترکہ دارالحکومت بنانے کا مطالبہ کیا تھا ان میں ایک سیاسی قائد اب تلنگانہ راشٹرسمیتی حکومت میں وزیر ہیں جبکہ دوسرے اسی سیاسی جماعت میں رکن اسمبلی ہیں۔ریاست تلنگانہ میں موجود حکومت اور دیگر سیاسی جماعتیں مرکزی حکومت سے کوئی مخالفت کے موڈ میں نہیں ہے اسی لئے مرکز کے ہر فیصلہ کی تائید یا برسراقتدار جماعت کو فائدہ پہنچانے والے اقدامات کا حصہ بننے تیار ہیں۔ مرکزی زیر انتظام علاقہ یا ملک کا دوسرا دارالحکومت بنائے جانے کے فیصلہ کی صورت میں مجموعی اعتبار سے سیاسی جماعتوں اور قائدین کے علاوہ کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن عوام کو ورغلانے کے لئے کوششوں کا آغاز کیا جاچکا ہے۔ تقسیم آندھرا پردیش کے دوران حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنانے کا مطالبہ کرنے والے قائدین وائی ایس چودھری اور سی ایم رمیش بھراتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں اور تلگو فلم اداکار و ہدایت کار چرنجیوی جنہوں نے حیدرآباد کو مستقل مرکزی زیر انتظام علاقہ قرار دیئے جانے کا مطالبہ کیا تھا ان کی بھی بی جے پی سے قربت میں اضافہ کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے حیدرآباد کے موقف کی تبدیلی کے سلسلہ میں کتنی ہی وضاحتیں کیوں نہ کی جائیں سیاسی ماہرین کی جانب سے یہ کہا جا رہاہے کہ جنوبی ہند کی سیاست میں نئی تبدیلی اور اہم پیشرفت کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے کرناٹک کو ’’گیٹ وے آف ساؤتھ انڈیا‘‘ کے طور پر منتخب کیا تھا اور اسی طرح حیدرآباد کے موقف کو جنوبی ہند کی سیاست میں علاقائی سیاسی جماعتوں کے موقف کو کمزور کرنے کیلئے استعمال کرنے کی حکمت عملی تیار کی ہے۔ بتایاجاتا ہے کہ ریاست تلنگانہ میں برسراقتدار سیاسی جماعت تلنگانہ راشٹر سمیتی کی جانب سے گذشتہ چند برسوں کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہر اقدام کی تائید کا مقصد ہی یہ رہا ہے کہ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے آندھراپردیش تنظیم جدید ایکٹ 2014 میں کسی قسم کی ترمیم کا منصوبہ تیار کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں تعلقات کی بنیاد پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایسا کرنے سے روکا جاسکے لیکن2019 عام انتخابات کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اور مرکز میں برسراقتدار سیاسی جماعت کی جانب سے جس راہ پر ملک کو لیجانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے سیاسی جماعتیں بھی خوفزدہ ہوچکی ہیں اور اپنے بچاؤ کیلئے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ یا ملک کا دوسرا دارالحکومت قرار دینے کے عمل کا جہاں تک تعلق ہے اس کے متعلق کہا جا رہاہے اسے بھی راز میں رکھتے ہوئے کاروائی مکمل کی جائے گی اور جس وقت اسے نافذ کرنا ہے اسی وقت یہ بات منظر عام پر آئے گی۔