صدر ترکی اردغان کو نیوزی لینڈ کی ناراضگی کا سامنا

,

   

٭ جاریہ ماہ منعقد شدنی مقامی انتخابات کی ریالی میں قتل عام ویڈیو فوٹیج کے استعمال کا الزام
٭ نیوزی لینڈ میں اور دیگر ممالک میں رہائش پذیر نیوزی لینڈ کے شہریوں کو خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ
استنبول ۔ 19مارچ ( سیاست ڈاٹ کام ) صدر ترکی رجب طیب اردغان کو اس وقت نیوزی لینڈ کی ناراضگی کا سامنا ہے کیونکہ نیوزی لینڈ نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ موصوف اپنے انتخابی پروپگنڈہ میں نیوزی لینڈ کی مساجد میں ہوئے قتل عام کی ویڈیو کا استعمال کررہے ہیں ۔ ترکی میںجاریہ ماہ مقامی انتخابات منعقد شدنی ہیں ۔ انہوں نے نیوزی لینڈ کے دہشت گرد حملہ کو نہ صرف ترکی بلکہ مذہب اسلام پر بھی حملہ سے تعبیر کیا ہے اور اپنی انتخابی ریالیوں میں ان ویڈیوز کا استعمال کررہے ہیں جو قاتل نے خود تیار کی تھی ۔ نیوزی لینڈ کے نائب وزیراعظم ونسٹن پیٹرس نے پیر کے روز اس بات پر احتجاج کیا کہ اس نوعیت کی متنازعہ ویڈیو کو سیاسی مقصد کیلئے استعمال کرنا مناسب نہیں کیونکہ اس سے نہ صرف نیوزی لینڈ کی عوام کو مزید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں بلکہ نیوزی لینڈ کے ایسے شہری جو اس وقت بیرونی ممالک میں رہائش پذیر ہیں ان کیلئے بھی ایسا کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے جو ایک انتہائی غیر مناسب بات ہے ۔ مسٹر پیٹرس نے منگل کو یہ اعلان کیا کہ وہ ترکی کی آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (OIC) کے اجلاس میں شرکت کیلئے ترکی روانہ ہونے والے ہیں ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ دو مساجد میں کئے گئے قتل عام میں ترکی کے تین شہری بھی زخمی ہوئے ہیں جبکہ حملہ آور جس کا تعلق آسٹریلیا سے ہے نے قتل عام کی رونگٹھے کھڑے کردینے والی ویڈیو بھی تیار کی اور 72 صفحات پر مشتمل اپنا منشور بھی ظاہر کردیا ہے ۔ اس وقت سوشل میڈیا پر اس کے ویڈیوز اور منشور وائرل ہوچکا ہے ، جہاں دہشت گرد نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس کا نشانہ مسلم درانداز ہیں ۔ منشور میں استنبول کی مشہور حاجیہ صوفیہ مسجد کے میناروں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جو اب ایک میوزیم ہے لیکن خلافت عثمانیہ کے دور میں یہ ایک چرچ تھا جس کو بعدازاں مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا ۔ نیوزی لینڈ کے حکام نے دہشت گرد کے ویڈیو کو وائرل ہونے سے روکنے کی پوری کوشش کا آغاز کردیا تھا اور یہ انتباہ بھی دیا تھا کہ اگر کسی نے بھی اس ویڈیو کو شیئر کرنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی ۔ لہذا فیس بک نے فوری طور پر اس ویڈیو کو حذف کردیا تھا لیکن صدر اردغان نے اپنی انتخآبی مہم کے دوران بار بار اس متنازعہ ویڈیو کا استعمال کیا اور حملوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے مغرب کے ذریعہ بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کو نظر انداز کرنے کی بات بھی کہی ۔ مغربی ترکی کے کناکالے علاقہ میں انہوں نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ یہ کوئی شاز و نادر ہونے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس کی پوری طرح سے منصوبہ بندی کی گئی تھی ۔ نیوزی لینڈ سے بھیجے گئے پیغامات کے ذریعہ وہ ( اسلام دشمن ) ہماری آزمائش کررہے ہیں ۔