صدر مصر عبدالفتاح السیسی کیخلاف احتجاجی مظاہرے

,

   

قاہرہ 21 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) مصر کے مختلف شہروں میں صدر عبدالفتاح السیسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ مصر میں اقتدار پر مضبوط گرفت رکھنے والے صدر کے خلاف یہ ’اچانک مظاہرے‘ سبھی کے لیے حیرت کا باعث ہیں۔مصری دارالحکومت قاہرہ سمیت اور کئی دوسرے شہروں میں صدر عبدالفتاح السیسی کے خلاف مظاہروں کی اطلاعات ہیں۔ یہ مظاہرے جمعہ بیس ستمبر کو شروع ہوئے۔ مظاہرین السیسی کے اقتدار سے علیحدگی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ قاہرہ کے مشہور التحریر اسکوائر میں سینکڑوں افراد نے جمع ہو کر نعرے بازی کا سلسلہ اْس وقت تک جاری رکھا، جب تک سکیورٹی فورسز نے پہنچ کر انہیں منتشر نہیں کیا۔عینی شاہدین کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں میں وہ پولیس اہلکار بھی شامل تھے، جو خاص طور پر مظاہروں کو منتشر کرنے کی خصوصی تربیت رکھتے ہیں۔ یہ مظاہرے بظاہر بہت بڑے نہیں تھے بلکہ کسی حد تک چھوٹے قرار دیے جا سکتے ہیں۔مصری صدر کے خلاف یہ ’اچانک مظاہرے‘ سبھی کے لیے حیرت کا باعث ہیں۔یہ بھی واضح نہیں کہ ان کا تعلق کس اپوزیشن گروپ یا کون سی پارٹی سے ہے۔ اس حوالے سے واضح نہیں کہ آیا مظاہرین کا تعلق مصر میں کالعدم اخوان المسلمون سے تھا۔ یہ بھی خیال کیا گیا ہے کہ ان مظاہروں کے پیچھے بزنس مین محمد علی نام کا ایک شخص ہو سکتا ہے۔محمد علی ایک بلڈنگ کنٹریکٹر ہونے کے علاوہ اداکاری بھی کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے حالیہ کچھ عرصے کے دوران السیسی کے خلاف متعدد ویڈیو آن لائن جاری کی ہیں اور اِن میں السیسی کی حکومت کے خاتمے کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔ علی نے السیسی اور فوج پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ ان ویڈیوز میں انہوں نے مصری عوام کو سڑکوں پر نکل کر السیسی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کی بار بار تلقین بھی کی۔ محمد علی اس وقت یورپی ملک اسپین میں مقیم ہیں۔مصری صدر نے محمد علی کی ویڈیوز کے مواد کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے خود کو ایماندار کہنے کے علاوہ مصری عوام اور فوج کے ساتھ مخلص اور وفادار بھی قرار دیا۔قاہرہ کے مشہور التحریر اسکوائر میں سینکڑوں افراد نے السیسی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔

السیسی مصر میں سن 2013 سے اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔ تب انہوں نے جمہوری انداز میں منتخب اولین مصری صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور اْس کے بعد سیالسیسی حکومت نے مرسی کے حامیوں کے خلاف انتہائی شدید کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔مرسی حکومت کے خاتمے کے بعد شروع ہونے والے السیسی دور میں آزادء صحافت کو محدود کرنے کے علاوہ سیکولر افراد سمیت مذہبی و سیاسی تحریک اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکنوں کو جیلوں میں مقید کر دیا گیا۔ یہ گرفتار افراد ابھی بھی اپنے خلاف عدالتی کارروائی کا انتظار کر رہے ہیں۔السیسی ہی کے دور میں ہی مصر سمیت عرب دنیا میں کئی دہائیوں سے سیاسی عمل پر گہرے اثرات مرتب رکھنے والی اخوان المسلمون کو دوبارہ سے خلاف قانون قرار دے کر تحلیل کر دیا گیا۔ مصر کے اکلوتے جمہوری طور پر منتخب ہونے والے صدر محمد مرسی کا تعلق بھی اسی مذہبی و سیاسی تحریک سے تھا۔