عبادتوں کا تحفظ بھی ان کے ذمے ہے

   

دیش بدل رہا ہے… کمل ناتھ کا سنگھ پریوار پر وار
نماز پر پابندی … ملازمتوں سے محروم کرنے کی سازش

رشیدالدین
جس طرح تاریکی کے بعد روشنی کا نمودار ہونا طئے ہوتا ہے ، اسی طرح جب سماج میں نفرت پیدا کرنے والی طاقتیں سر ابھارتی ہیں تو ان سے مقابلہ کیلئے کوئی نہ کوئی میدان میں آجاتا ہے ۔ ایسے وقت جبکہ ملک میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کا ننگا ناچ جاری ہے اور عوام صورتحال سے مایوس ہورہے تھے ، مدھیہ پردیش سے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔ سماج کو مذہبی منافرت کے ذریعہ تقسیم کرنے کی سازش کرنے والوں سے مقابلہ کیلئے کوئی تو میدان میں آیا جس نے سماج کو توڑنے والے عناصر پر واضح کردیا کہ ملک ہندوتوا ایجنڈہ سے نہیں بلکہ دستور کے مطابق چلے گا۔ گزشتہ چار برسوں سے ملک میں بے قابو جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو لگام لگانے کا کارنامہ مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر کمل ناتھ نے کیا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مدھیہ پردیش سے فرقہ پرست طاقتوں کے زوال کا عملاً آغاز ہوچکا ہے۔ نریندر مودی کے وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد سنگھ پریوار کو کھلی چھوٹ مل گئی تھی لیکن مدھیہ پردیش نے ملک کی دیگر ریاستوں کو نئی راہ دکھائی ہے۔ سرکاری اداروں میں ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کی کوششوں کو کمل ناتھ نے بریک لگاکر جرات مندی کا ثبوت دیا ہے ۔ مرکز اور بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں ہر سطح پر ہندوتوا کو مسلط کرنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ مسلمانوں سے منسوب شہروں اور اہم مقامات کے ناموں کو تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کھلے مقامات پر نماز کی ادائیگی پر پابندی اور مسلمانوں میں خوف و دہشت پیدا کرنے گاؤ رکھشا کے نام پر تشدد معمول بن چکا ہے ۔ ایسے میں تین ریاستوں سے تبدیلی کی لہر اٹھی ہے۔ مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی حکومتوں کے زوال کے بعد محسوس ہوا کہ ملک بدل رہا ہے۔ تین اہم ریاستوں نے عوام کے نفرت کے ایجنڈہ کو مسترد کرتے ہوئے دیگر علاقوں کے عوام کو حوصلہ دیا ہے۔ عوامی فیصلہ کا احترام کرنا نئی حکومتوں کا فرض ہے ، لہذا مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر کمل ناتھ نے سنگھ پریوار پر پہلا وار کیا۔

ریاستی سکریٹریٹ اور اہم سرکاری دفاتر میں ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو وندے ماترم پڑھنے کے لزوم پر روک لگادی۔ شیوراج سنگھ چوہان کی شروع کردہ اس روایت پر 15 سال بعد آخرکار بریک لگ گیا۔ ملک کا قومی ترانہ ’’جن گن من‘‘ ہے لیکن وندے ماترم کو مخصوص مذہب کو مسلط کرنے کیلئے فروغ دیا جارہا ہے تاکہ مسلمانوں کی دل آزاری ہو۔ کمل ناتھ حکومت کے فیصلہ پر امیت شاہ اور بی جے پی کے دیگر قائدین پھڑپھڑانے لگے اور حب الوطنی کا جذبہ جاگ اٹھا۔ ملک کے مسلمہ قومی ترانہ کو ماہ میں ایک بار نہیں بلکہ روزانہ پڑھنے کو لازم قرار دیں ، تب بھی کسی کو اعتراض نہیں ہوگا لیکن مسلمانوں کے عقیدہ کے خلاف گیت کو مسلط کرنا محض دل آزاری نہیں تو اور کیا ہے ؟ سنگھ پریوار کا ایجنڈہ ہی یہی ہے کہ مسلمانوں کی شریعت میں مداخلت کی جائے ، اس کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کئے جاتے ہیں ۔ کبھی وندے ماترم تو کبھی بھارت ماتا کی جئے کا لزوم ، کبھی رام مندر تو کبھی مخالف شریعت قوانین ۔ الغرض سنگھ پریوار مسلمانوں میں دوسرے درجہ کے شہری ہونے کا احساس پیدا کرتے ہوئے ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے ۔ ان حالات میں کمل ناتھ نے دستور کو سربلند رکھتے ہوئے جس حوصلے اور جرات مندی کا مظاہرہ کیا ، وہ یقیناً قابل ستائش اور دیگر سیکولر قائدین کیلئے قابل تقلید ہے۔ اگر تمام سیکولر قائدین میں یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو 2019 ء میں بی جے پی کا زوال یقینی ہوگا۔ کچھ تو ہو مدھیہ پردیش سے شروعات ہوچکی ہے ۔ کمل ناتھ نے اصول پسند اقدام کے ذریعہ نہرو اور گاندھی کی کانگریس کی یاد تازہ کردی ہے ۔ ملک میں فرقہ وارانہ منافرت میں روز افزوں اضافہ کے درمیان فرقہ واریت کے گھٹا ٹھوپ اندھیرے میں کمل ناتھ کا اقدام امید کی ایک کرن ہے۔ کمل ناتھ جیسے قائدین سیکولرازم کی سر بلندی کی ضمانت ہیں ۔ فرقہ پرستوں کو سبق دیا گیا کہ ملک کسی مخصوص مذہب کو ماننے والوں کا نہیں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا مساوی حق ہے۔ دستور نے تمام مذاہب کو یکساں آزادی اور حقوق فراہم کئے ہیں۔ آئندہ چند ماہ میں لوک سبھا انتخابات کی پرواہ کئے بغیر یہ فیصلہ کرتے ہوئے کانگریس نے یہ ثابت کردیا کہ وہ ووٹ بینک سیاست پر یقین نہیں رکھتی ۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کی تازہ مثال گجرات میں دیکھی گئی جہاں اسکولی طلبہ میں حب الوطنی کے نام پر مخصوص مذہب کو تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اسکولوں میں حاضری کیلئے جئے بھارت اور جئے ہند جیسے الفاظ کا لزوم عائد کیا گیا ۔ اسکولوں میں وندے ماترم ، سرسوتی وندنا اور سوریا نمسکار پہلے ہی متعارف کئے جاچکے ہیں۔ بی جے پی ریاستوں کا اثر تلنگانہ میں بھی دیکھا گیا جہاں کل ہند صنعتی نمائش کی افتتاحی تقریب کا آغاز وندے ماترم سے ہوا۔ واحد مسلم وزیر جو ریاست کے واحد وزیر بھی ہیں ، ان کی موجودگی میں وندے ماترم گانا خانگی اداروں میں سنگھ پریوار ذہنیت سرائیت
کر جانے کی علامت ہے ۔

نوئیڈا میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی عائد کرتے ہوئے ایک طرف مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی سازش ہے تو دوسری طرف مسلم نوجوانوں کو روزگار سے محروم کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ مختلف شعبہ جات کے اداروں پر مشتمل نوئیڈا شہر میں ہزاروں مسلم نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں جو فرقہ پرست طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ انہوں نے یوگی ادتیہ ناتھ حکومت کی مدد سے سازش تیار کی اور انتطامیہ کو پابند کیا کہ مسلمانوں کو کھلے عام جمعہ کی ادائیگی سے روکا جائے۔ ابتداء میں زیادہ سختی نہیں کی گئی لیکن گزشتہ دو ہفتوں سے پارکس جہاں نماز ادا کی جاتی تھی، بند کردیا گیا اور وہاں پانی چھوڑ دیا گیا تاکہ نماز ادا نہ ہوسکے۔ مساجد پہلے ہی سنگھ پریوار کے نشانہ پر ہیں اور بابری مسجد سمیت کئی مساجد کو شہید کردیا گیا اور اب نماز پر پابندی کی سازش ہے۔ یوں تو ملک کے دیگر علاقوں میں بھی وقفہ وقفہ سے کھلے عام نماز کی ادائیگی کے خلاف آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ دستور کی دفعہ 19 (1) (B) کے تحت تمام شہریوں کو اسلحہ کے بغیر پرامن طور پر جمع ہونے کا حق دیا گیا ہے۔ نوئیڈا میں حکام کا نماز کی پابندی کا فیصلہ دستوری حق کی خلاف ورزی ہے۔ آر ایس ایس کی شاکھائیں اور پریڈ پلے گراؤنڈس ، پارکس اور عوامی مقامات پر کسی اجازت کے بغیر منعقد ہوتی ہے تو پھر نماز پر اعتراض کیوں ؟ نماز میں آر ایس ایس کی پریڈ کی طرح کوئی ہتھیار تو نہیں ہوتے لیکن پھر بھی مخالف مسلم طاقتوں کو مسلمانوں کی عبادت کھٹک رہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح مسلمان نوئیڈا کی کمپنیوں سے نکل جائیں تاکہ دوسروں کو موقع ملے ۔ پولیس نے ان کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے ، جن کے ملازمین عوامی مقامات پر نماز جمعہ ادا کرتے ہوئے پائے جائیں۔ ایسی صورت میں یہ کمپنیاں کسی کارروائی کا سامنا کرنے کے بجائے اپنے مسلم ملازمین کو علحدہ کرنے میں عافیت محسوس کریں گے ۔ کیا ملک میں مذہبی آزادی مسلمانوں کیلئے نہیں ہے ؟ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ نماز کیلئے مسجد ضروری نہیں ہے اور کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے لیکن نوئیڈا میں کھلے مقام پر ادائیگی سے روکنا سپریم کورٹ کے فیصلہ کی صریح خلاف ورزی ہے۔ نماز پر پابندی کے فیصلہ پر ملک بھر میں سناٹا طاری ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی قیادت کی بے حسی فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلوں کو مزید بلند کرسکتی ہے۔ کہاں ہے وہ قائدین جو مسلمانوں کے درمیان اپنی شعلہ نوائی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن جب فرقہ پرستوں سے جمہوری انداز میں مقابلہ کا وقت آتا ہے تو اپنے خول میں بند ہوجاتے ہیں۔ قیادتوں کی اسی بے حسی کے نتیجہ میں مخالف طاقتوں کو نت نئے انداز میں ہراساں کرنے کا موقع حاصل ہورہا ہے۔ اگر قیادتیں اپنی ذمہ داری کو دیانتداری کے ساتھ نبھائیں تو پھر کسی کو نماز پر پابندی عائد کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
عبادتوں کا تحفظ بھی ان کے ذمے ہے
جو مسجدوں میں سفاری پہن کے آتے ہیں