عبادت گاہ کس کی ہے ، عبادت کون کرتا ہے

   

بھومی پوجا … طاقت کے زور پر ہندوتوا ایجنڈہ
کانگریس … اصولوں سے انحراف

رشیدالدین
جس ملک میں دستور اور قانون کو طاق پر رکھ دیا جائے تو وہاں جمہوریت کا تصور باقی نہیں رہے گا۔ اکثریت اور طاقت کے زور پر من مانی فیصلے ہونے لگیں تو اسے ڈکٹیٹرشپ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہوسکتی۔ حکمراں طبقہ جب دستور پر لئے گئے حلف کو بھلاکر اپنے عقائد اور نظریات کو قوم پر مسلط کرنا چاہے تو وقتی طور پر کامیابی ہوسکتی ہے لیکن مستقبل قریب میں زوال یقینی ہوجائے گا۔ نریندر مودی حکومت میں ہندوتوا اپنے عروج پر ہے اور اسے جنونی کیفیت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ جب کسی پر جنون طاری ہوتا ہے تو اسے اچھے اور برے کی تمیز نہیں ہوتی ۔ وہ اپنے ہر کام کو درست تصور کرنے لگتا ہے ۔ سنگھ پریوار نے گزشتہ چار دہوں تک ملک میں اقتدار کا خواب آنکھوں میں سجائے رکھا۔ 2014 ء میں واضح اکثریت کے حصول سے اس خواب کی تکمیل ہوئی ۔ یوں تو اٹل بہاری واجپائی بھی وزیراعظم رہے لیکن وہ جارحانہ فرقہ پرستی کے بجائے راج دھرم پر یقین رکھتے تھے۔ گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کے مبینہ ماسٹر مائینڈ نریندر مودی اور امیت شاہ جب دہلی کے تخت پر فائز ہوئے تو سنگھ پریوار بے قابو ہوگیا اور ہندو راشٹر کے قیام کی منصوبہ بندی کی گئی۔ مسلمانوں کی شریعت ، عبادتگاہوں اور تشخص پر وار کیا گیا۔ فسادات اور ہجومی تشدد کے ذریعہ حوصلوں کو پست کیا گیا تاکہ مسلمان خود کو دوسرے درجہ کا شہری تسلیم کرلیں۔ ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کے لئے پارلیمنٹ ہی نہیں بلکہ عدلیہ کا استعمال کیا گیا۔ حکمراں بھلے کوئی ہوں اس تاریخی حقیقت کو یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں کہیں بھی ظلم نے حد سے تجاوز کیا ، قدرت نے اسے مٹاکر رکھ دیا ۔ ظلم اور جبر دیرپا ثابت نہیں ہوسکتے۔ شریعت میں مداخلت کے ذریعہ طلاق ثلاثہ پر پابندی کے بعد واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کا خصوصی موقف ختم کردیا گیا ۔ انتخابی منشور کے اہم وعدے رام مندر کی تعمیر کیلئے سپریم کورٹ کا استعمال کیا گیا اور آخرکار مندر کی تعمیر کیلئے بھومی پوجا کی گئی ۔ اب یکساں سیول کوڈ کا وعدہ باقی بچا ہے جو ہندو راشٹر کے قیام کی اہم کڑی ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر بھلے ہی ایک مخصوص ذہنیت کی خوشی کا سامان کرسکتی ہے لیکن دستور ، قانون اور جمہوریت کو اس فیصلہ نے کمزور کردیا ہے ۔ رام مندر کے حق میں سپریم کورٹ سے فیصلہ کس طرح حاصل کیا گیا، اس بارے میں ہر کوئی واقف ہے ۔ عدالت نے ثبوت ، دلائل اور گواہی کے بجائے آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے دلائل و شواہد مسجد کے حق میں دیئے لیکن فیصلہ مندر کے حق میں دیتے ہوئے اکثریتی طبقہ کی آستھا پر تاریخی حقائق کو قربان کردیا ۔ عدلیہ کے فیصلہ کی آڑ میں نریندر مودی اپنی دوسری میعاد میں مندر کی تعمیر مکمل کرتے ہوئے تیسری میعاد کو یقینیی بنانا چاہتے ہیں۔ بھومی پوجا تقریب ملک کے چوکیدار کا ون مین شو رہا۔ مودی اور بھاگوت ایک طرف نظریہ ساز تو دوسری طرف کٹھ پتلی ۔

اگر امیت شاہ ، اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی شریک ہوتے تو مودی توجہ کا مرکز نہ ہوتے۔ لہذا امیت شاہ کو کورونا کا اور کورونا کے خوف سے اڈوانی اور جوشی کی عدم شرکت کا ڈرامہ کیا گیا جو مبصرین کے مطابق بناوٹی کھیل ہے۔ آر ایس ایس کے ہاتھوں میں مودی حکومت یرغمال بن چکی ہے اور حکومت کا ریموٹ بھاگوت کے ہاتھ میں ہے۔ یوں تو جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کا برسر اقتدار آنا ملک کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے لیکن بابری مسجد کے حوالے سے ہر انصاف پسند کے لئے تین یوم سیاہ ہیں۔ 6 ڈسمبر 1992 ء کو مسجد کی شہادت ، 9 ڈسمبر 2019 ء مندر کے حق میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور 5 اگست 2020 ء کو مندر کیلئے بھومی پوجا ۔ یہ تینوں واقعات تاریخ میں یوم سیاہ کے طور پر درج رہیں گے۔ مودی کو اگر دستور کا احترام ملحوظ رہتا اور ہندو ووٹ بینک پیش نظر نہ ہوتا تو مندر کے ساتھ مسجد کے سنگ بنیاد میں شرکت کرنی چاہئے تھی تاکہ ’’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ‘‘ کے نعرے میں سچائی دکھائی دے۔ بھومی پوجن کے لئے حکومت کی عجلت پسندی ناقابل فہم ہے۔ ملک میں کورونا کے قہر سے عوام بدحال ہیں، ہزاروں اموات واقع ہوئیں اور لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ پریشانی اور دہشت کے اس ماحول میں عوام کو طبی سہولتوں اور بہتر علاج کی فراہمی کے بجائے رام مندر کے جذباتی مسئلہ کو ہوا دی گئی۔ کورونا کے سبب لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہوگئے ۔ غریب اور متوسط طبقات روزی روٹی کے مسائل میں گھرے ہیں۔ عوامی مشکلات سے بے پرواہ نریندر مودی حکومت کو نفرت کے ایجنڈہ کی فکر ہے۔ اگست کا مہینہ اور بالخصوص 5 اگست کی تاریخ سے آخر مودی حکومت کا کیا رشتہ ہے۔ گزشتہ سال 5 اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی موقف دفعہ 370 ختم کرتے ہوئے ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ۔ 370 کی برخواستگی کی پہلی برسی کے دن رام مندر کے لئے بھومی پوجا کی گئی ۔ گزشتہ سال یکم اگست کو ملک میں طلاق ثلاثہ پر پابندی کا قانون نافذ کیا گیا۔ ملک کی دوسری بڑی اکثریت پر وار کرنے کیلئے 5 اگست کا انتخاب کسی حکمت سے خالی نہیں۔ آیا کسی نجومی اور جیوتشی نے یہ تاریخ اچھے مہورت کے طور پر منتخب کی ہے ؟ دراصل کورونا اور معاشی انحطاط سے نمٹنے میں ناکامی سے منہ چھپانے عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے موڑنے کیلئے جذباتی مسئلہ کا سہارا لیا گیا ۔ کشمیر کے خصوصی موقف کی برخواستگی کے ایک سال کے موقع پر رام مندر کا بھومی پوجن دراصل اقلیت کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی ایک کوشش ہے۔

ملک کی سیاست میں اصول پسندی کی جگہ موقع پرستی نے لے لی ہے ۔ فرقہ پرست طاقتوں کے عارضی استحکام سے خوفزدہ ہوکر کانگریس نے اپنی روایات اور اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے ووٹ بینک کی خاطر رام مندر بھومی پوجن کی تائید کردی۔ سیکولرازم ، بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کی روایات جو کبھی کانگریس کی شناخت تھی، موجودہ قیادت نے اقتدار اور کرسی کیلئے فراموش کردیا۔ حقیقی اصول پسندی تو یہی ہے کہ انسان ہوا کے رخ کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے خلاف کھڑا ہو۔ گزشتہ 6 برسوں سے اقتدار سے محرومی نے کانگریس کی قیادت کو کمزور کردیا ہے۔ اقتدار کی طلب اور اس کی خواہش اس قدر شدید ہے کہ قیادت کو اس بات کا احساس نہیں کہ وہ فرقہ پرستوں کے راستہ پر غیر ارادی طور پر گامزن ہوچکی ہے۔ رام مندر کے مسئلہ پر پرینکا گاندھی کے بیان نے ملک کے سیکولر ، جمہوریت پسند اور انصاف پسند طاقتوں کو مایوس کردیا ہے۔ جہاں تک رام مندر تنازعہ کا سوال ہے ، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کانگریس دور حکومت میں مسجد میں شیلا نیاس کی اجازت دی گئی۔ کانگریس کے دور میں بابری مسجد شہید کی گئی، اس کے باوجود ملک کے مسلمانوں نے کانگریس پر بھروسہ کیا لیکن ایسے وقت جبکہ انصاف کا قتل کرتے ہوئے مسجد کی جگہ مندر تعمیر کی جارہی ہے، کانگریس قیادت نے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے موقف کی تائید کردی۔ کانگریس اس بات کو بھول گئی کہ بابری مسجد کی شہادت کے فوری بعد اس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ نے مسجد کو اسی مقام پر بنانے کا اعلان کیا تھا۔ نرسمہا راؤ کانگریس کے وزیراعظم تھے اور ان کا اعلان وزیراعظم کی حیثیت سے تھا۔ لہذا ملک کے وزیراعظم کے اعلان کا احترام کیا جانا چاہئے ۔

برخلاف اس کے کانگریس نے اپنے ہی وزیراعظم کے موقف کو بے خاطر کرتے ہوئے ہندو ووٹ بینک کیلئے بی جے پی کا راستہ اختیار کرلیا ۔ اگر کانگریس رام مندر بھومی پوجن کی تائید نہ کرتی تو ووٹ بینک پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور تائید کرنے سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے ۔ مسلم لیگ نے کانگریس کے موقف پر سخت احتجاج کیا ہے لیکن محض احتجاج کافی نہیں ۔ مسلم لیگ کو کیرالا میں کانگریس زیر قیادت اتحاد سے علحدگی اختیار کرتے ہوئے ایمانی حرارت کا ثبوت دینا چاہئے ۔ کانگریس میں موجود سرکردہ مسلم قائدین کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ آیا موجودہ صورتحال میں وہ پارٹی میں برقرار رہ سکتے ہیں یا نہیں ۔ مسلم قائدین خاص طور پر غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل کو اپنا ضمیر ٹٹولنا چاہئے کیونکہ ایمان سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے ۔ کانگریس کے مسلم قائدین متحدہ طور پر قیادت کو مجبور کریں کہ وہ رام مندر کی تائید کے فیصلے کو واپس لے اور مسلمانوں سے معذرت خواہی کرے۔ رام مندر کی تعمیر سنگھ پریوار کا ایجنڈہ ہے، لیکن کانگریس کو کم از کم اپنے اصولوں پر قائم رہنا چاہئے۔ راجیو گاندھی نے 1989 ء میں لوک سبھا انتخابات کی مہم کا ایودھیا سے آغاز کیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ قیادت بھی اپنے اجداد کے راستہ کو اختیار کرنا چاہتی ہے۔ مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر نے ملک میں غلط روایت قائم کردی ہے ۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مطابق ہر برسر اقتدار پارٹی اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرے گی۔ اگر بی جے پی کے زوال کے بعد کوئی سیکولر اور انصاف پسند حکومت آتی ہے تو وہ اپنی طاقت کے ذریعہ مسجد کے موقف کو بحال کرسکتی ہے۔ مندر کی تعمیر کا مطلب یہ نہیں کہ موجودہ صورتحال ہمیشہ باقی رہے گی ۔ یہ تنازعہ انصاف کی فراہمی تک جاری رہے گا۔ منور رانا نے کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
ہے میرے دل پہ حق کس کا حکومت کون کرتا ہے
عبادت گاہ کس کی ہے ، عبادت کون کرتا ہے