عثمانیہ یونیورسٹی کالج فار ویمن میںحضور نظام کو زبردست خراج دو روزہ کانفرنس میں دانشوروںکا خطاب

   

ڈاکٹر سیدہ نسیم سلطانہ
اسسٹنٹ پروفیسر
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
53 ویں برسی کے موقعہ پر حضور نظام کو زبردست خراج ، عثمانیہ یو نی ورسٹی کا لج فار ویمن میں دو ،روزہ کا نفرنس ، دانشوروں کا خطاب’’ میرا ایک اور مذہب ،صلح کل ،جو رعایا میری سلطنت میں رہتی ہے اس کے جان و مال کا تحفظ ، مذہب و عقائد اور عبادت گاہوں کی حفاظت میرا اولین فریضہ‘‘
علمی و ادبی ، تہذیبی و ثقافتی اور تاریخی ورثوں کا تحفظ ہمارا اولین فریضہ ہے ۔ ہمارے اسلاف نے ماضی میں جو کار ہائے نمایاں انجام دیے اس کی نظیر نہیں ملتی ۔صد افسوس کہ آج ہم نہ صرف اپنے اسلاف کی میراث کو بھلا چکے ہیں بلکہ اُ ن کے کارناموں کو خراج تحسین پیش کرنے سے بھی غافل ہیں جب کہ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی علمی و ادبی ، تہذیبی و ثقافتی اور تعمیری خدمات نہ قابل فراموش ہیں ۔ ان ہی میں قومی یکجہتی کے علمبر دار، رعایا پر ور ، سخی و عادل حکمران حضور نظام ، آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خاں بہادر بھی ہیں جن کے کارناموں کو دنیا بھر میں عزت و توقیر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے لیکن کچھ شر پسند ، تنگ نظر عناصر حضور نظام کو بد نام کر نے کی مذموم کوشش کر رہے ہیںجو فرقہ پرستی اور زعفران زاری کے سواء کچھ اور نہیں۔ایسے میں دانشوارن ملت ، سماج کے ذمہ دار اشخاص اور ہر علم دوست شہری پر یہ فرض عین ہوگا کہ حضور نظام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حضور نظام سے محبت اور وفاداری کا حق ادا کریں۔ آج الحمد للہ حضور نظام کو جنت نصیب ہوئے 53سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان کے کارنامے رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے ۔ اسی ضمن میں بانی ء جامعہ عثمانیہ کی 53 ویں برسی (وفات 24 َ/فروری 1967ء) کے موقعہ پر عثمانیہ یو نی ورسٹی کالج فار ویمن کوٹھی میں25اور26 فروری کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے دوروزہ بین الاقوامی دکنی کانفرنس جا معہ عثمانیہ کے تنا ظر میںاور پہلا میمو ریل لکچر ’’ بانیء جامعہ عثمانیہ ، آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں بہادر ‘‘ بہ عنوان ’’ جامعہ عثمانیہ کا قیام ، اغراض و مقاصد اور پس منظر ‘‘ اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ۔حضور نظام کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے مشاہیر ادب ، اساتذہ ، سماجی کار کنوں اور ،ریسرچ اسکالروں کی کثیر تعداد شریک رہی ۔ صبح 10بجے وقت دیا گیا تھا لیکن حسب روایت مہمان ساڑھے دس بجے سے آہستہ آہستہ آنا شروع ہوئے ، دیکھتے ہی دیکھتے 11بجے تک ہال بھر چکا تھا ۔
پروگرام کی ابتداء ہی حضور نظام کو خراج تحسین پیش کرنے والے ان اشعار سے کی گئی ۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہء نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
اب سوچتے ہیں لائیں گے تجھ سا کہاں سے ہم
اٹھنے کو اٹھ تو آئے ترے آستاں سے ہم
اسی کو ناقدریٔ عالم کا صلہ کہتے ہیں
مرگئے ہم تو زمانے ، نے بہت یاد کیا
نبیرہ حضور نظام کو اس شعر کے ساتھ اسٹیج پر مدعو کیا گیا ۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آئو کہ گلشن کا ، کاروبار چلے
عالمی شہرت یافتہ اسکالر عالی جناب تقی عابدی صاحب کو اس شعر کے ساتھ سہ نشین کو رونق بخشنے کہا گیا ۔
محفل میں چار چاند لگانے کے باوجود
جب تک نہ آپ آئے اجالا نہ ہوسکا
پروفیسر مجید بیدار کی شخصیت کی عکاسی اس شعر سے کی گئی ۔
جن کے کردار سے آتی ہے صداقت کی مہک
اُن کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
پروفیسر ایس اے شکور کی نمائندگی اس شعر کے ساتھ کر تے ہوئے اسٹیج پر مدعو کیا گیا ۔
اسے گمان ہے کہ میری اڑان کچھ کم ہے
مجھے یقین ہے کہ یہ آسمان کچھ کم ہے
مہمان خصوصی ڈاکٹر سید عبد المہیمن قادری لاابالی کی نذر یہ شعر کرتے ہوئے سہ نشین پر جلوہ افروز ہونے کہا گیا ۔
شریعت کی روح اور طریقت کی جاں
حقیقت کا جیو ، معرفت کی رواں
نواب میر عثمان علی خاں بہادر یادگار لکچر کے لیے خصوصی طور پر مدعو پروفیسر مولا بخش اسیر کی نذر یہ شعر کیا گیا ۔
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اس کے بعد سے چراغوں میں روشنی نہ رہی
شمع روشن کرکے پروگرام کا آغاز کیا گیا ۔ مہمانو ں کو گلدستے پیش کیے گئے ۔ مہمانوں سے حضور نظام کی زندگی کے آخری ایام کے مخطوطے کے مشاہدے کی درخواست کی گئی ساتھ ہی ھادیٔ دکن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (1270H-1854AD) کے ڈائرکٹر ، ڈاکٹر سید عبد المہیمن قادری لاابالی نے نذ یر احمد صدر شعبہ ء اردو عثمانیہ یو نی ورسٹی کا لج فار ویمن کوٹھی کی بے لوث تعلیمی خدمات پر ڈاک ٹکٹ کا اجرا ء عمل میں لایا ۔ محمد نذیر احمد نے استقبالیہ کلمات ادا کیے اورملک کے موجودہ حالات پر اظہا ر تاسف کرتے ہوئے کہا کہ’’ اس طرح کی کانفرنسوں کا انعقاد شہر حیدر آباد میں ایک صحت مند فضاء ہموار کرنا ہے کیوں کہ ادب اور سماج کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے ، سماج ادب ہی کے تابع ہوتا ہے اور وہ انسانوں کو توڑتا نہیں بلکہ جوڑتا ہے لیکن آج کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی جانور وں کے نام پر انسانوں کو کاٹا جا رہا ہے۔میں جامعات کے طلباء و ریسرچ اسکالرس کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ ان نوجوانوں نے انسانیت کی بقاء کے لیے قربانیاں دی ہیں ، انسانیت اور جمہوریت کا تحفظ نوجوانوں کی اہم ذمہ داری ہے کیوں کہ جب انسانیت بچے گی تب ہی جمہوریت بچے گی دھرم بچے گا ، مذہب بچے گا ۔انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں، ہندوستان میں آزادی کے بعد یہ سب سے بڑی تحریک ہے اور جب تک یہ تحریک جاری رہے گی عدم تشدد سے کام لیں کیوں کہ تشددکمزور آدمی کی علامت ہے ۔
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
عالمی شہرت یا فتہ اسکالر ، نقاد و محقق اور شاعر تقی عابدی صاحب نے اپنے کلیدی خطبے میں کہا کہ’’ آج کے اس پر آشوب دور میں حضور نظام کو خراج تحسین پیش کر نا مستحسن اقدام ہے ۔ہندوستان میں تعلمی ترقی اور عدالتوں کا قیام نواب میر عثمان علی خاں کا ، کارنامہ ہے وہ ہندومسلم اتحاد کے علمبر دار تھے ، انہوں نے حضور نظام کے ان زرین اقوال سے سامعین کو روشناس کر وایا کہ ’’حضور نظام نے ہندو مسلم کو اپنی دوآنکھیں قرار دیا اور کہا کہ میں ایک دوسرا مذہب صلح کل بھی رکھتا ہوں۔ جو رعایا میری سلطنت میں رہتی ہے اس کے جان و مال کا تحفظ ، مذہب و عقائد اور عبادت گاہوں کی حفاظت میرا اولین فریضہ ہے ــ‘‘ عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام سے قبل یہاںمدرسہ فخریہ اور دار العلوم کا قیام عمل میں آچکا تھا، رابندر ناتھ ٹا ئیگور نے جامعہ عثمانیہ میں اُردو ذریعہ تعلیم کی ستائش کی تھی۔ نبیرہ حضور نظام نواب نجف علی خاں نے کوٹھی ویمنس کالج کی کاوشوں کی ستائش کرتے ہو ئے نیک تمنائوں کا اظہار کیا ۔ پروفیسر مولابخش اسیر علی گڑھ مسلم یو نی ورسٹی نے اپنے لکچر میں حضور نظام کے کارناموں پر 28صفحات پر مشتمل بہت ہی کار آمدمضمون پیش کیا نیز انہوں نے شمالی ہند پر دکنی کے اثرات کی مدلل نشاندہی کی ۔
پروفیسر مجید بیدار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ آج کے پر ہنگم ماحول میں نواب میر عثمان علی خاں کو یاد کرنا تاریخ دہرانا ہے ۔ میر عثمان علی خاں ایک رعایا پر ور حکمران تھے جنہوں نے نہ صرف حیدر آبادی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیے بلکہ ہندوستان بھر میں جب کبھی ضرورت آن پڑی بے دریغ مال و زر خرچ کیا ‘‘ پروفیسر مجید بیدار صاحب نے یہ انکشاف کیا کہ عثمانیہ یو نی ورسٹی میں اپنے دور صدارت میں انھوں نے اس طرح کی علمی و ادبی کانفرنسوں کے انعقاد کے لیے شعبہ ء اردو میں 12لاکھ روپے کی رقم جمع کر واچکے ہیں ۔ پروفیسر ایس اے شکور نے کہا کہ ’’ حضور نظام کی ذات و صفات اور کارناموں کا احاطہ دوروزہ کانفرنس میں نہ ممکن ہے ۔ بحیثیت عثمانیہ یو نی ورسٹی کے استاد اس طرح کی علمی و ادبی سر گرمیوں کی سر پرستی کرنا اِ ن کی اولین ذمہ داری ہے ‘‘ ۔بر صغیر کے معروف شاعر و ادیب ، نثار، فرزند ِ عثمانیہ جناب نذیر عابدی صاحب نے اس تقریب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے دبئی سے شرکت کی اور اپنی قیمتی آرا سے مستفید کیا کہ’’ ایسی کانفرنسوں کے ذریعے جو لوگ ہم سے دور ہوچکے ہیں اُنھیں قریب کیا جائے خاص طور پر ہندی اور تلگوزبان کے اسکالرس اور شعراء کو بھی شامل کیا جائے ‘‘ مہمان خصوصی ڈائرکٹر ھادیٔ دکن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، ڈاکٹر سید عبد المہیمن قادری لاابا لی نے کہا کہ ’’ اسلامی ، تاریخی ، علمی و ادبی ، مخطوطات و ملفوظات کا تحفظ اِن کا خاندانی ورثہ ہے جس کو وہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں‘‘ ۔ ممتاز فکشن رائٹر محترمہ قمر جمالی صاحبہ نے اس کانفرنس میں اپنی شرکت کا مقصد بتایا کہ وہ نئی نسل میں اپنی امانت منتقل کر نا چاہتی ہیں گویا وہ نئی نسل میں خود کو زندہ رکھنا چاہتی ہیں ، انھیں اِ س بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نئی نسل انھیں پڑھے یا نہ پڑھے ۔ پرنسپل کے روجہ رانی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ اردو تمام ہندوستانیوں کی زبان ہے ۔ نواب میر عثمان علی خاں کی فن تعمیرات ، ان کے علمی و ادبی کارناموں اور قومی یکجہتی کے جذبے کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ اس موقع پر نواب بہادر یار جنگ کے افراد خاندان،ممتاز سماجی جہد کار محترمہ جسمیت کور ، محترمہ رفیعہ نوشین ، میڈیا نمائندوں کے علاوہ اساتذہ ، طلباء و ریسرچ اسکالرس کی کثیر تعداد موجود تھی ۔
اس کانفرنس میں علی گڑھ ، پونے ،کرنول ، بیجا پور ، نظام آباد ، بھونگیر اور سنگا ریڈی ، دبئی سے شاعروں اور مقالہ نگاروں نے شرکت کی ۔ کل 26ْْ تحقیقی مقالے،10منی افسانے،مائکرو فکشن پیش کیے گئے ۔پروفیسر شاہد نوخیز ، پروفیسر عزیز بانو، معروف افسانہ نگار محترمہ نفیسہ خان ، ڈاکٹر عرشیہ جبین ، ڈاکٹر نکہت آرا شاہین ، ڈاکٹر محمد کاشف ، ڈاکٹر عبد القوی کے علاوہ دیگر نے مختلف اجلاسوں کی صدارت کے فرائض انجام دئیے ۔
مشاعرہ :جناب تقی عابدی کی صدارت میں منعقدہ یہ مشاعرہ موجودہ دور میں ، جامعہ عثمانیہ کا سب سے کامیاب اور یاد گار مشاعرہ ثابت ہوا باذوق سامعین کے دلوں پر اس مشاعرے دیر پا قائم رہا ، کنوینر پروگرام نے کہا کہ مسلسل کا م سے وہ بے حد تھک چکی تھیں لیکن اس مشاعرے نے زندگی کی تھکان اتار دی ۔جناب سید تمجید حیدر نے تمہید باندھی ۔
پاس خاطر سے پشیماں ہوگئے
سارے قاتل چاک داماں ہوگئے
اک موحد جب سے مشرک ہواٹھا
جتنے کا فر تھے مسلماں ہوگئے
نوخیز شاعر جناب ریاست علی اسرار ( نبیرہ حضرت ریاست علی تاج مرحوم) نے نوجوان نسل میں نمائندہ شاعر کا بگل بجا دیا اور اپنی دو غزلیں پیش کیں ۔
زندان میں اسیروں کی لکھی ہوئی غزل
احساس انقلاب دلاتی ہوئی غزل
سب سمندر ،نگل گئے دیکھو
کتنے گہرے بھنور چنے ہم نے
جناب تقی عابدی کینیڈا نے اپنے مخصوص کلام اور مخصوص لب و لہجے اور گھن گرج سے سوتوں کو جگایا ، دلوں کو گرمایا ،وقت کو تھما یا ۔
ارباب ِ حکومت سے کبھی خوف نہ کھانا
مٹی کے کھلونے ہیں یہ مٹی میں ملا دو
بھٹکے ہوئے منزل پہ پہنچ جائیں گے خود ہی
رستوں سے اگر راہ نمائو ں کو ہٹا دو
پروفیسر مولا بخش اسیر نے اپنے اثر انگیز کلام اور دلفگار ترنم سے غزل کے بانکپن کو بام عروج پر پہنچادیا ۔
میرے ہونے سے کیا فائدہ تو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں
ایک وہم و گماں ہے جہاں اب تو مل جائے کہیں نہ کہیں
تیری دنیا سے منہ موڑ کر میں چلا جائوں گا چھوڑ کر
کچھ تڑپتی ہوئی خواہشیں کچھ تمنا کی بنجر زمیں
جناب رئوف خیر نے سر سید احمد خاں کی غیردریافت فارسی نعت کا اپنا منظوم اردو ترجمہ پیش کیا جسے خوب داد و تحسین پیش کی گئی ۔ عصر حاضر کے مشہور و معروف شاعر آغا سروش کے کلام پر سارا ماحول واہ واہ کی صدائوں سے گونج اٹھا ۔
اب پس تقطیع و تنقید کچھ باقی نہیں
وقت میرے واسطے فاروقی و نارنگ تھا
شہ رگوں سے پہنے والے خون کی رنگت سرخ تھی
پرچموں کا تو ہرا اور زعفرانی رنگ تھا
سردار اثر نے اپنے مزاحیہ کلام سے ماحول کو قہقہہ زار کیا ۔
آپ چن کر لائے ہیں اس کو تو وہ نیتا بنا
ورنہ وہ قاتل لٹیرا دوغلا پہلے سے تھا
ایک دو اشعار کا سرقہ کیا میں نے
شاعروں میں اس طرح کا سلسلہ پہلے سے تھا
ڈاکٹر صبیحہ نسرین نے میزبان شاعرہ کے فرائض انجام دیے ۔ ڈاکٹر نوری خاتون جوائنٹ کنوینر نے لمحہ آخر تک اس پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے تگ و دو کی ۔ جناب مختار احمد فردین اسوسی ایٹ ایڈیٹر روز نامہ تاثیر نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔