عدتِ و فات کا مسئلہ

   

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ ہندہ کے شوہر کا انتقال ہوا، سوال یہ ہے کہ ہندہ، عدت ِ وفات میں ملازمت یا کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکل سکتی ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا
جواب: صورت مسئول عنہا میں بیوہ ہندہ، عدت وفات میں عندالضرورۃ دن میں ، مقام عدت سے باہر جاسکتی ہے، البتہ رات، شوہر مرحوم کے گھر میں گذارے۔ بہجۃ المشتاق لأحکام الطلاق ص ۱۶۰ میں ہے: والمتوفی عنہا زوجھا تخرج بالنھار لحاجتھا الی النفقہ ولاتبیت الا فی بیت زوجہ۔ فقط واللہ أعلم
سماوہ سلطان : : مرسلہ : آمنہ احمد
بعد از کربلا سفرِ شام: صبر، شجاعت و عظمتِ اہلِ بیت
حدیثِ عشق دو باب است کربلا و دمشق
یک حسین رقم کرد و دیگر زینب
روزِ عاشور جب حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوگئے تو ان کی ہمشیرہ سیدہ زینبؓ نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا،’’اے میرے اللہ! یہ قربانی ہم سے قبول فرما‘‘۔ پھر امام حسینؑ کی لاش پر کہنے لگیں: ’’اے محمد ﷺ یہ آپؐ کی بیٹیاں ہیں جو اسیر ہوکر جارہی ہیں۔ یہ آپؐ کے فرزند ہیں جو خون میں ڈوبے زمین پر گرے ہوئے ہیں، اور صبح کی ہوائیں ان کے جسموں پر خاک اڑا رہی ہیں! یہ حسینؑ ہے جس کا سر پشت سے قلم کیا گیا اور ان کی دستار اور ردا کو لوٹ لیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی داڑھی سے خون ٹپک رہا تھا! میرا باپ فدا ہو اُس پر جس کا نانا رسول خدا ﷺ ہے اور وہ پیامبر ہدایت ﷺ ، اور خدیجۃالکبریؓ اور علی مرتضیؑ، فاطمۃالزہراؓسیدۃ نساء العالمین کا فرزند ہے، میرا باپ فدا ہو اس پر وہی جس کیلئے سورج لوٹ کے آیا حتیٰ کہ اس نے نماز ادا کی۔‘‘ (بحار الانوار)جب تمام لشکرِ حُسین شہید ہو گیا تو مردوں میں صرف امام زین العابدین ؓبچ گئے چونکہ وہ شدید بیمار تھے اس لیئے جنگ کا حصہ نہیں بنے۔ ان کے ساتھ صرف مستورات رہ گئی تھیں۔ شامِ غریباں سے سیدہ زینب ؓبنت علیؓ کا امتحان شروع ہوا۔ اپنے بھائیوں، بیٹوں اور بھتیجوں کی پرُدرد شہادت کے بعد حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بہادری اور صبر کی جو مثال قائم کی اس کی نظیر ملنا ناممکن ہے۔یہ تکلیف دہ سفر چلتا رہا اور جہاں جہاں قافلہ رُکتا وہاں جشن کا سما ہوتا، کچھ لوگ جانتے تھے کہ یہ کون ہیں اور کئی بے خبر بھی تھے جنہیں بس یہی بتایا گیا تھا کہ یہ کچھ باغی ہیں اور ان کے خاندان والے۔پہلے یہ قافلہ کوفہ میں عبید اللّہ ابن زیاد کے دربار میں پہنچا۔ یہاں سب اسیر ابن زیاد کے سامنے پیش ہوئے اور نیزوں سمیت سر بھی وہاں رکھے گئے۔ جنابِ سیدہ نے ابنِ زیاد کے ساتھ جو مناظرہ کیا وہ تاریخ کا سب سے مضبوط مناظرہ ثابت ہوا۔ابنِ زیاد نے اس مناظرہ کے بعد اسی میں اپنی خیر جانی کہ اس قافلے کو جلد از جلد شام میں یزید کے پاس بھیجا جائے کیونکہ کوفہ کے لوگوں میں بغاوت پیدا ہو رہی تھی۔اس وقت شام (دمشق) میں یزید کی حکومت کافی مضبوط تھی۔ اس نے جشن کا حکم دے رکھا تھا اور شامیوں نے اس روز نئے کپڑے پہنے، راستوں کو سجایا، ڈھول باجے بجائے، کسی میلے کا سا ماحول بنا دیا گیا تھا تاکہ اس خوشیاں مناتے ہوئے ہجوم میں سے آلِ نبی ﷺ کا قافلہ گزے اور ان کی اذیت میں اضافہ ہو۔ پھر زندانِ شام میں ان کو قید کر لیا گیا۔ اور بہت عرصہ وہاں قید رکھا گیا۔ لیکن اہلِ بیت نہ ڈرے اور نہ ہی جھکے، نہ ہی اپنے مقصد سے پیچھے ہٹے۔سیدہ زینب ؓ کا کردار ہم سب عورتوں کے لئے ایک مثال ہے۔ ہمیں ان سے قیادت سیکھنی ہے، مشکلات سے گزرنا سیکھنا ہے، حق کیلئے آواز بلند کرنا سیکھنا ہے۔کربلا سے لے کر شام تک اور شام سے دوبارہ مدینہ تک، صرف درس ہی درس ہے، مردوں کیلئے، عورتوں کیلئے ، بچوں کیلئے ، صبر کا درس، بہادری کا، رضائے الٰہی کی طلب کا، اپنے آپ کو بہتر سے بہترین بنانے کا۔ اہل بیت سے محبت تب پوری ہوگی جب ہم اپنی زندگیوں میں ان کو عملی طور پر شامل کرنا شروع کریں گے۔لاکھوں کروڑوں درود و سلام ہو نبی ﷺاور اُن کے اہل بیت پر۔