عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات

   

تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا!
عشق تمام مصطفی! عقل تمام بو لہب!
محبت ایک قلبی کیفیت کا نام ہے، وہ ایک ایسا جذبۂ دروں ہے جو عاشق کو ہمیشہ بے چین و مضطرب رکھتا ہے، وہ ایک آگ ہے جو عاشق کے سینے میں دہکتی رہتی ہے اس کی حرارت و تپش سے نصیحت، خیر خواہی، ملامت کے بال و پر جل جاتے ہیں، اپنوں کی نصیحت، پرایوں کی ملامت اس کے دل پر اثر نہیں کرسکتی۔
شرعِ محبت میں ہے عشرت منزل حرام
شورش طوفاں حلال، لذت ساحل حرام
محبت ہر وقت عاشق کو محبوب کے زلف کا اسیر بنائے رکھتی ہے، وہ سب سے بیگانہ ہوجاتا ہے، اس کی خواہشیں، آرزوئیں، تمنائیں اور مرادیں سب ختم ہوجاتی ہے، اس کی زندگی کا ایک ہی مقصد اور ایک ہی آرزو رہتی ہے، وہ صبح و شام کی ہر آن و گھڑی محبوب کے دید و وصال کا آرزومند رہتا ہے، محبوب کی رضامندی ہی اس کی زندگی کا حاصل ہوتی ہے، اس کی دید میں اس کو چین و قرار رہتا ہے ۔
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر
محبت عاشق کو بہرہ بنادیتی ہے، وہ محبوب کے علاوہ کسی کی بات سننے تیار نہیں ہوتا۔ اس کی سماعت محبوب کے خلاف ادنیٰ سی بات برداشت نہیں کرسکتی۔ محبت عاشق کو اندھا بنادیتی ہے، دیدار یار کے علاوہ کوئی چیز اس کی آنکھ کو نہیں بھاتی، اس کے ذہن و دماغ میں صرف محبوب ہی بسا ہوتا ہے، اس کے فکر و خیال کی بلندیاں، محبوب کے اطراف طواف کرنے میں مگن رہتی ہیں، اس کی زبان ہر وقت محبوب کے ذکر جمیل میں زمزمہ سنج رہتی ہے، اس کی آنکھیں محبوب کے دیدار کے لئے تڑپتی رہتی ہیں اس کے انتظار میں آنسو بہاتی ہیں، ہر وقت، ہر جا محبوب کو تلاش کرتی رہتی ہیں۔

دیدہ بکشا و جمال یار بیں
ہر طرف ہرسو رُخِ دلدار بیں
(ترجمہ ) آنکھ کھول اور محبوب کا جمال دیکھ ۔ہرطرف ، ہرسمت اُس کا چہرہ ہے ۔
انسان کی تخلیق عبادت و بندگی کیلئے کی گئی ہے اور عبادت و بندگی کا اعلیٰ مقام عشق و محبت ہے یعنی انسان کی تخلیق کامقصد محبت الٰہی ہے ، ذکر و شغل ، عبادت و ریاضت اور طاعت و بندگی کا محور عشق الٰہی ہی ہے ؎
عقل و دین و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات
انسان کی بزرگی اور شرافت اس کے دل کی وجہ سے ہے، جب تک دل حرکت کرے گا اس کا جسم متحرک رہے گا اورجب دل کی حرکت بند ہوجاتی ہے تو اعضاء جسم بھی اپنی حس و حرکت کھو دیتے ہیں۔ دل، جسم انسانی میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ سارے اعضاء و جوارح اس کے خادم ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ دل سے کوئی عبادت مثل نماز و زکوٰۃ ادا نہیں کی جاتی دیگر اعضاء جسمانی سے عبادت و اطاعت کی جاتی ہے، دل محلِ عبادت نہیں بلکہ وہ مقام محبت ہے، اس کے محبوب کا مسکن ہے اور یہ محبت خالق کائنات رب العلمین کو مقصود و مطلوب ہے اور عبدیت میں سب سے اونچا مقام و مرتبہ مقام محبوبیت ہے۔
میان عاشق و معشوق رمزیست
کراماًکاتبین راهم خبر نیست
عاشق و معشوق کے رمز و بھید سے کراماً کاتبین بے خبر ہیں

اس خاکدانِ گیتی میں بہت سے بندگانِ خدا گزرے ہیں جو عبادت و بندگی کے اونچے مراتب و مناصب پر فائز ہوئے ۔ کوئی مرتبہ ’’خلعت‘‘ پر فائز ہوا اور ’’خلیل اللہ ‘‘ کے لقب سے ملقب ہوا ، کوئی ہمکلامی خدا کا شرف حاصل کیا اور ’’کلیم اﷲ ‘‘ کہلایا ۔ کل کائنات میں ایک ہی ہستی ہے جو بندگی کے اعلیٰ و ارفع مقام ’’محبوبیت‘‘ پر فائز و متمکن ہوئی اور وہی ذات خلاصۂ کائنات ہے ، اسی ہستی سے باغیچۂ دنیا میں رنگ و بو باقی ہے ، انہی سے شمس و قمر ضوفشا ں ہیں ، وہی وجہہ تخلیق کائنات ہیں ۔ شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبالؔ نے اسی راز ہائے سربستہ کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا ؎
ہو نہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو ، خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو ، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :ترجمہ : اے محبوب ! آپ فرمادیجئے : اگر تم اﷲ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اﷲ تعالیٰ تم کو محبوب بنالے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اﷲ تعالیٰ خوب بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔(سورۃ آل عمران ۳؍۳۱)

اس آیت کریمہ میں خطاب صرف اُمت اسلامیہ کو نہیں ہے بلکہ یہود و نصاریٰ، مشرکین ساری انسانیت کو ہے۔ یہود و نصاریٰ کو اﷲ کے چہیتے ہونے کے دعویٰ تھا۔ ارشاد الٰہی ہے: یہود و نصاریٰ نے کہاکہ ہم اﷲ تعالیٰ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ (سورۃ المائدہ ۵؍۱۸)
نبی اکرم ﷺ نے مشرکین مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ’’تم ملت ابراہیمی سے ہٹ گئے ہو، بتوں کی پرستش ملت ابراہیمی میں نہیں‘‘، مشرکین مکہ نے جواب دیا : ’’(کفار نے کہا) ہم ان (بتوں) کی عبادت اس لئے کرتے ہیں تاکہ وہ ہمیں اﷲ کے قریب تر کردیں‘‘۔
(سورۃ الزمر ۳۹؍۳)
غرض بلا لحاظ ساری انسانیت کے لئے عاشق الٰہی اور محبوب الٰہی بننے کے لئے ایک ہی معیار مقرر کیا گیا ہے اور وہ اتباع نبوی ہے، اس کے بغیر محبت الٰہی اور رضاء الٰہی حاصل نہیں ہوتی :
خلافِ پیمبر کسے رہ گزید کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید
’’جو کوئی پیغمبر کے بتلائے ہوئے راستہ سے ہٹے گا کہ ہرگز منزل کو نہیں پہنچے گا ‘‘۔
اتباع ، ایمان بالرسول، محبت رسول اور اطاعت رسول کا نام ہے۔ اور اتباع نبوی کی وجہ اہل ایمان ہی روئے زمین پر سب سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کو چاہنے والے اور محبوب ہیں۔ ارشاد ہے : ’’اﷲ مومنین سے محبت فرماتا ہے اور وہ اﷲ سے محبت کرتے ہیں‘‘۔
(سورۃ المائدہ ۵؍۵۴)
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو اس ہستیٔ مقدس کا عرفان تھا اس لئے وہ نہایت مؤدب اور دل و جان سے فدا تھے ۔ بارگاہِ رسالت کی عظمت و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ صحابہ کرام آپ ﷺ کی محفل بابرکت میں جلوہ گر ہوتے تو ایسے باادب ہوتے کہ اپنے جسم کو تک حرکت نہ دیتے گویا کہ وہ انسانی شکل میں جامد مجسمے ہیں اور ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ کی محفل مبارک میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سواء کوئی اپنی نگاہ اُٹھاکر دیکھنے کی تاب نہ رکھتے ۔ سالہا سال آپ ﷺ کی صحبت بافیض میں رہنے والے صحابہ کرام کا بیان ہے کہ ’’تم مجھ سے آپ ﷺکے حلیہ مبارک سے متعلق سوال نہ کرو کیونکہ میں کبھی جی بھر کے آپ ﷺ کو دیکھ نہ سکا ‘‘۔

بارگاہ رسالت کے ادب کا یہ عالم تھاکہ صحابہ کرام آپ ﷺ کے درِ اقدس پر حاضر ہوتے تو اپنے ناخنوں سے دروازے پر دستک دیتے۔(بخاری۔ ادب مفرد)
حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی یہ حالت تھی کہ جب بارگاہِ رسالت میں گویا ہوتے تو اس قدر اپنی آواز کو دھیمی رکھتے گویا نہایت رازادانہ بات ہو اور اس قدر آہستہ عرض کرتے کہ پھر دہرانے کی خواہش کی جاتی ۔ وہ اس لئے تھا کہ بارگاہ رسالت میں ادنیٰ سی بے توجہی اﷲ تعالیٰ کو گوارہ نہیں اور تھوڑی سی بھی لاپرواہی ہو تو زندگی بھر کی پونجی ختم ہوجائے اور سارے اعمال حبط ہوجائیں۔ بناء بریں اسلاف نے نہایت تاکید سے حضور پاک ﷺ کی بارگاہ کے آداب و احترام کو ملحوظ رکھنے کی تائید و تلقین کی اور فرمایا :
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
یعنی زیر آسمان یہ ایک ادب کا ایسا مقام ہے، جو عرش سے زیادہ نازک تر ہے۔ جہاں جنید اور بایزید اپنی سانس کو گم کردیتے ہیں۔