علامہ اقبال کے افکار دائرہ علم و عمل اور فراست اسلامیات سے لبریز

   

جامع مسجد عالیہ میں محفل اقبال شناسی سے ڈاکٹر عقیل ہاشمی کا خطاب
حیدرآباد ۔ 12 ۔ فروری : ( پریس نوٹ ) : قدرت نے انسانی تخلیق میں کئی ایسے جوہر پوشیدہ رکھے ہیں کہ جس کے ادراک سے انسانی زندگی کے طور طریق میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے سوچ بچار کی ضرورت ہوگی ۔ حکمت اور دانائی سے اس کے اچھے اور برے پہلوؤں پر غور کرنے سے بہت سارے اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں ، ویسے کائنات کی حقیقتوں کی نقاب کشائی عقل انسانی کے بس کا روگ نہیں ہے ۔ شعور حقیقت کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کو محسوس کیا جائے مشاہدات سے اس کی جانب اشارے کیے جائیں شاید اسی کو فلسفہ کا نام بھی دیا گیا ۔ فلسفہ کچھ اور نہیں کائنات میں قدرت کی دی ہوئی ہزارہا نعمتوں سے واقفیت کے متعلق غور و فکر حکمت و دانائی کے ساتھ اس کا اظہار ہے ۔ شعراء حضرات اکثر تخیل کی دنیا سے نت نئے خیالات ڈھونڈ لاتے ہیں ۔ حقیقت کو مشاہدات کی بنیاد پر فکر کے مختلف زاویوں کی روشنی میں اجتہادی انداز سے زندگی اور قدرت میں پھیلے ہوئے اشیاء مظاہرے مثبت طور طریقوں سے استفادہ کے بارے میں سوچتے ہیں تاکہ انفس و آفاق کی اندرونی کیفیات کو سمجھا اور سمجھایا جاسکے ۔ اقبال کی یوں تو پہچان شاعر مشرق ، شاعر انسانیت کی حیثیت کے علاوہ فلسفی شاعر کی صورت سے آشکار ہے یوں بھی اقبال کے کلام کی اجتہادی قوت زندگی کے خصوصا اسلامی فکر و فہم کے نمایاں خطوط پڑھے جاسکتے ہیں ۔ اقبال کے ہاں ابتدائی زمانے میں فلسفہ یا عرفان ذات و کائنات کی باتیں نہیں ملتی البتہ محض شاعرانہ و اردات یا تراجم کی صورتیں نظر آتی ہیں تاہم حیات انسانی کی کائناتی اہمیت کی وجہ اس کی آرزوئیں اور تمنائیں خوب سے خوب تر کی طرف ان کے خیالات میں کمی نہیں آئی ۔ سچ بات تو یہ ہے کہ آرزوں اور تمناؤں کا مقصد اس کی علمی حقیقت سے ہمکنار کرنے کا جذبہ ابتداء سے ہی ان کے کلام میں پایا جاتا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر عقیل ہاشمی سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے ’ فلسفہ اقبال کے نقوش اسلامی اقدار کے آئینہ دار ہیں ‘ کے موضوع پر ، کانفرنس ہال جامع مسجد عالیہ میں محفل اقبال شناسی کی 1015 ویں نشست کو مخاطب کرتے ہوئے کیا ۔ اس محفل کا آغاز حافظ محمد تنویر احمد کی قرات کلام پاک سے ہوا ۔ کنوینر محافل عالیہ جناب غلام یزدانی سینئیر ایڈوکیٹ نے مقرر اور موضوع کا مختصراً تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اقبال نے یورپ کے سفر میں یوروپین استعماریت سیاسی کشمکش مادیت کے فروغ اور اس کے مضمرات سے واقف ہونے ان سب باتوں کا مشاہدہ کیا مختلف فلاسفروں سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں ان کے خیالات جاننے کا موقعہ ملا ویسے بھی ہندوستان میں مغربی فلسفہ ہی ان کا موضوع رہا سفر یورپ میں اس کے وسیع رجحانات کا انہیں اندازہ ہوا ۔ ڈاکٹر عقیل ہاشمی نے سلسلہ خطاب کو جاری رکھتے ہوئے فلسفہ اقبال کے نقوش کی تلاش میں اقبال کے مختلف اشعار اور ان کے اپنے موضوع فلسفہ عجم ، اسلامی عقائد ، مسلم فلاسفہ کے خیالات نیز تصوف اور اس کے ماخذات اور قبل اسلام ایرانی فلسفیانہ افکار سے واقفیت دلائی اس کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک کی متحرک مشینی زندگی کو اندر اور باہر سے دیکھا اس کے عوامل و اسباب ہی کے مختلف جہتوں کا مطالعہ کے بارے وضاحتیں پیش کیں ۔ علامہ اقبال نے ابتداء ہی سے جذبہ ملی اس کے استحکام کے بارے سوچتے رہے تھے ۔ اقبال فطری لحاظ سے راسخ عقیدگی اور مسلمانوں میں اس روشنی کو پہنچانا چاہتے تھے جو عمل اور فعالی رجحانات کی متقاضی ہو ۔ اسی بات کو انہوں نے اپنے خطبات میں واضخ کیا ۔ الہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید سے متعلق ان کے خطبات تشنگانہ اسی کی تکمیل تھے ۔ غرض اقبال کے فلسفیانہ افکار کا دائرہ عمل علم و حکمت دانائی فراست و اسلامیات سے جدا نہ رہا ۔ مقرر کی دعا پر نشست کا اختتام ہوا ۔۔