عہد اسلامی اورغیرمسلم اقلیت

   

ساری دنیا میں مسلمان غیر محفوظ اور غیر مامون ہیں، اہل اسلام کا خون ہر ایک کے لئے مباح ہو گیا، خون مسلم کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہی۔ ہندوستان کی رفتار سیاست بہت تیزی سے بدل رہی ہے اور ایک لامتناہی تاریک و خوفناک تشدد و انتشار کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے اور ہر طرف مسلمانوں کے لئے غیر شعوری طورپر قید و بند تیار کئے جا رہے ہیںاور اگر مسلمان فی الفور سیکولر غیر مسلم اکثریت کے ساتھ مل کر مذہبی منافرت و تشدد کا مقابلہ نہ کریں اور مذہبی جنون کا دروازہ بند نہ کریں تو مستقبل قریب میں ایک بھیانک آندھی و طوفان کی لپیٹ میں آکر ہندوستان تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آج اسلام دشمن طاقتیں اسلام کی صورت کو مسخ کرنے میں صدفیصد کامیاب ہو گئیں اور اسلام کو ایک مہذب سماج کے لئے پُرخطر باور کرانے میں بازی لے گئی ہیں، جب کہ اسلام کے اصول و قواعد اور اس کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ اہل اسلام کی جہانبانی و حکمرانی کی طویل فہرست ہے اور صدیوں پر محیط ہماری تاریخ ہے۔ بحیثیت حاکم اور بحیثیت رعایا ہماری داستانیں تاریخ انسانی کے قرطاس پر سنہرے و جلی حروف کے ساتھ رقم ہے۔
آج فلسطین میں اہل اسلام پر حددرجہ ظلم جاری ہے، روز بہ روز کمسن بچوں، ضعیف، نوجوانوں اور خواتین کی اموات کی خبریں آرہی ہیں۔ یہی وہ فلسطین ہے، جب مسلمانوں نے عیسائیوں کا محاصرہ کیا، عیسائی قلعہ بند ہوکر لڑتے رہے، بالآخر ہمت ہارکر صلح کی پیشکش کی اور اپنے اطمینان کے لئے یہ شرط رکھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں سے صلح کا معاہدہ لکھا جائے، تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ صحابہ کرام سے مشاورت کے بعد بیت المقدس پہنچے اور ایک تاریخ ساز معاہدہ ترتیب دیا، جس میں عیسائی اقلیت کی جان و مال، عزت و آبرو، جاہ و حشمت، کلیسا و صلیب اور مذہبی آزادی کی مکمل ضمانت دی۔ یہ معاہدہ اسلام کی اقلیت نواز تعلیمات کا آئینہ دار ہے، جس کی تفصیل درج ہے:
’’یہ وہ امان ہے، جو اللہ کے بندے امیر المؤمنین عمر نے ایلیاء کے لوگوں کو دی ہے۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لئے ہے، اس طرح پر کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے گی، نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کو اور نہ ان کے احاطہ کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں جبر نہ کیا جائے گا، نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ ایلیاء میں ان کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے، ایلیاء والوں پر فرض ہے کہ اور شہروں کی طرح جزیہ دیں اور یونانیوں اور چوروں کو نکال دیں۔ ان یونانیوں میں سے جو شہر سے نکلے گا، اس کی جان اور مال کو امن ہے، تاکہ وہ جائے پناہ تک پہنچ جائے اور جو ایلیاء ہی میں رہائش اختیار کرلے تو اس کو بھی امن ہے اور اس کو جزیہ دینا ہوگا۔ ایلیاء والوں میں سے جو شخص اپنی جان و مال لے کر یونانیوں کے ساتھ چلا جانا چاہے تو ان کو، ان کے گرجاؤں کو اور صلیبوں کو امن ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی جائے پناہ تک پہنچ جائیں۔ جو کچھ اس تحریر میں ہے، اس پر اللہ کا عہد، رسول خدا، خلفاء اور عام مؤمنین کے ذمہ ہے، بشرطیکہ یہ جزیہ ادا کرتے رہیں‘‘۔ اس تحریر پر حضرت خالد بن ولید، حضرت عمرو بن العاص، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہم گواہ ہیں اور یہ تحریر ۱۵ہجری میں لکھی گئی۔ (تاریخ ابوجعفر جریر طبری، فتح بیت المقدس)
ملک شام کی فتح کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ کو جو فرمان لکھا، اس میں یہ الفاظ درج ہیں: ’’مسلمانوں کو منع کرنا کہ ذمیوں پر ظلم نہ کرنے پائیں، نہ ان کا مال بے وجہ کھائیں اور جس قدر شرطیں تم نے ان کے ساتھ طے کی ہیں، ان سب کو پورا کرو‘‘۔(کتاب الخراج۔۸۲)
ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک ضعیف شخص کو بھیک مانگتے دیکھا۔ پوچھا: ’’کیوں بھیک مانگتا ہے؟‘‘۔ اس نے کہا: ’’مجھ پر جزیہ لگایا گیا ہے اور مجھ میں ادا کرنے کی قدرت نہیں ہے‘‘۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس کو اپنے ساتھ گھر لائے اور کچھ نقد رقم دے کر بیت المال کے داروغہ کو حکم دیا کہ ’’اس قسم کے معذوروں کیلئے بیت المال سے وظیفہ مقرر کردیا جائے‘‘۔ اسی موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’واللہ! یہ انصاف کی بات نہیں کہ ان لوگوں کی جوانی سے ہم فائدہ اُٹھائیں اور بڑھاپے میں ان کو نکال دیں‘‘۔ (کتاب الخراج۔۷۲)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد مبارک میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے حیرہ کی فتح میں جو معاہدہ لکھا، اس میں یہ الفاظ تھے: ’’اور میں نے ان کو یہ حق دیا کہ اگر کوئی بوڑھا شخص کام کرنے سے معذور ہو جائے یا اس پر کوئی آفت آئے یا پہلے دولتمند تھا پھر غریب ہو گیا اور اس وجہ سے اس کے ہم مذہب اس کو خیرات دینے لگیں تو اس کا جزیہ موقوف کردیا جائے گا اور اس کو اور اس کی اولاد کو مسلمانوں کے بیت المال سے دیا جائے گا جب تک وہ مسلمانوں کے ملک میں رہے، لیکن اگر وہ غیر ملک میں چلا جائے تو مسلمانوں پر اس کا نفقہ واجب نہ ہوگا‘‘۔ہندوستان میں مسلم اقلیت کے ساتھ حکومت کی جو ناانصافی اور زیادتی ہے، وہ بالکل عیاں ہے۔ حکومتی سطح پر ہر طرح سے مسلمانوں کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی ہے۔ اسلامی تاریخ کا درج ذیل واقعہ ان لوگوں کے لئے درس و نصیحت ہے، جو مہذب تمدن کے روپ میں مہذب متمدن درندے ہیں جو قانون کے دائرے میں بے رحمانہ قتل و خون کا ہنر جانتے ہیں۔
حضرت عمر بن سعد حمص کے حاکم تھے، زہد و ورع اور ترک دنیا کے معاملے میں تمام عہدیدارانِ خلافت میں اپنی شناخت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ اُن کی زبان سے اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے (ذمی) سے متعلق یہ لفظ نکل گیا کہ ’’خدا تجھ کو رسوا کردے‘‘۔ اس پر ان کو اس قدر افسوس ہوا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا استعفیٰ پیش کردیا اور کہا کہ ’’اس عہدہ کی بدولت مجھ سے یہ حرکت صادر ہوئی‘‘۔ (ازالۃ الخلفاء۔۲۰۳، بحوالہ الفاروق)