عیدالاضحی کی تیاریاں مکمل، عیدگاہوں کی بجائے مساجد میں نماز عید

,

   

بیشتر مساجد میں ایک سے زائد جماعتیں،جانوروں کی فروخت میں کمی،صحت و صفائی کے خصوصی انتظامات
حیدرآباد۔ریاست بالخصوص گریٹر حیدرآباد کے حدود میں عیدالاضحی کے روایتی عقیدت و احترام سے منانے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔ کورونا وائرس کے واقعات میں اضافہ کے باوجود مرکز نے اَن لاک 3 کے تحت مزید رعایتوں کا اعلان کیا ہے لہذا عوام کو جانوروں کی خریداری اور منتقلی میں کسی قدر سہولت پیش آئی۔ حکومت نے ریاست کی تمام عیدگاہوں میں نماز عید کی اجازت نہیں دی ہے جبکہ مساجد میں 50 مصلیوں کے ساتھ نماز عید کا اہتمام کیا جائے گا۔ مکہ مسجد اور شاہی مسجد میں ہزاروں مصلیوں کی آمد کے امکان کے تحت نماز عید کی اجازت نہیں رہے گی۔ مذہبی مقامات پر ہجوم کی اجازت نہیں ہے لہذا دونوں تاریخی مساجد میں نماز عید کا اہتمام نہیں ہوگا تاکہ عوام کو کورونا وائرس سے بچایا جاسکے۔ دیگر مساجد میں حکومت نے نہ صرف 50 مصلیوں کے ساتھ نماز عید کی اجازت دی بلکہ ایک سے زائد جماعتوں کے اہتمام کا مشورہ دیا تاکہ تمام افراد کو نماز عید کا موقع ملے۔ شہر اور اضلاع میں بیشتر مساجد کمیٹیوں نے دو یا تین جماعتوں کے اہتمام کا فیصلہ کیا ہے۔ مصلیوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے ساتھ جانماز لائیں اور مساجد میں فرش پر نماز ادا کی جائے گی۔ مساجد میں سنیٹائزیشن کا نظم کیا گیا ہے اور باب الداخلہ پر مصلیوں کے ہاتھوں کو سنیٹائز کیا جائے گا۔ مساجد کے اطراف صحت و صفائی کے خصوصی انتظامات کے سلسلہ میں بلدی حکام کو ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

پولیس اور بلدیہ کی جانب سے جانوروں کی فروخت پر نظر رکھی گئی ہے تاکہ غیر قانونی منتقلی اور ممنوعہ جانوروں کی فروخت کو روکا جاسکے۔ ہائی کورٹ نے حکومت کو غیر قانونی ذبیحہ پر روک لگانے کی ہدایت دی ہے۔ کورونا کے پھیلاؤ اور تحدیدات کے پیش نظر کئی مدارس اور اداروں نے بڑے جانوروں کی قربانی کا نظم نہیں کیا ہے۔ گذشتہ سال کے مقابلہ اس بار بڑے اور چھوٹے جانور مارکٹ میں کم پائے گئے لہذا ان کی قیمتیں گذشتہ سے مہنگی رہیں۔ کورونا وائرس کے سبب اس بار قصائیوں کا ملنا آسان نہیں ہوگا۔ ہر سال مہاراشٹرا اور کرناٹک کے علاوہ مختلف اضلاع کے قصائی شہر پہنچ جاتے تھے جن کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی تھی اس مرتبہ پڑوسی ریاستوں کے علاوہ اضلاع سے بھی بہت کم قصائی شہر پہنچے ہیں۔ اضلاع میں کیسس میں اضافہ کے سبب احتیاطی تدابیر کے طور پر قصائیوں کی قلت ہوسکتی ہے۔ جانوروں کی فروخت بھی اس مرتبہ کم دیکھی گئی اور بہت سے خاندانوں نے گھروں میں قربانی کے بجائے اداروں کو قربانی کی ذمہ داری دے دی۔ ساتھ ہی ساتھ غریبوں میں گوشت کی تقسیم کا کام بھی اداروں کے حوالے کردیا۔ کورونا کے خوف سے گوشت کی تقسیم بھی اس بار متاثر ہوسکتی ہے۔ لوگ پہلے ہی سے رشتہ داروں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ ان کے گھر حصہ نہ لائیں، نہ وہ کسی کو حصہ دیں گے اور نہ ہی کسی کا حصہ قبول کریں گے۔ شہر کے بعض علاقوں میں چند مکانات پر گوشت کا حصہ قبول نہ کرنے سے متعلق بورڈ باہر گیٹ پر آویزاں کردیا گیا۔ الغرض رمضان المبارک کے مقابلہ اس مرتبہ مسلمانوں کو نماز عید کے مساجد میں اہتمام کا موقع ضرور ملے گا لیکن قربانی کے سلسلہ میں سرگرمیاں کم دکھائی دے رہی ہیں۔