غیر مسلم فسخ نکاح کرے تو نافذ نہوگا

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے عدالت دیوانی میں اپنے شوہر زید کے خلاف تنسیخ نکاح کے لئے مقدمہ دائر کیا۔ شوہر بیوی کو طلاق دینا نہیں چاہتا بلکہ پرورش کرنے تیار تھا نیز ایک لڑکا بھی تولد ہوا ہے۔ لیکن عدالت نے دونوں کے نکاح کو فسخ کردیا۔ایسی صورت میں شرعاً شوہر پر مہر کو ادائی لازمی ہے یا کیا جبکہ حاکمِ عدالت غیر مسلم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں غیر مسلم حاکمِ عدالت نے ہندہ اور زید کے درمیان تنسیخ نکاح کا جو فیصلہ دیا وہ ازروئے مذہب اسلام ناقابل نفاذ ہے درمختار برحاشیہ رد المحتار جلد ۴ ص ۵۱۲ کتاب القضاء میں ہے (و) قضاء (کافر علی مسلم أبدا و نحو ذلک) کالتفریق بین الزوجین بشھادۃ المرضعۃ (لاینفذ) فی الکل۔ لہذا دونوں شرعاً میاں بیوی ہیں مہر اگر مؤجل ہے تو اس کی ادائی اِس وقت شوہر پر واجب نہیں کیونکہ مہر مؤجل مطلق ہو تو اس کی ادائی طلاق یا بعد موت احد الزوجین پر ہوگی۔ فتاوی عالمگیری جلد اول ص ۳۱۸ میں ہے وان کان لا الی غایۃ معلومۃ فقد اختلف المشایخ فیہ فقال بعضہم یصح وہو الصحیح و ھذا لأن الغایۃ معلومۃ فی نفسھا وھوالطلاق أو الموت۔ فقط واللہ أعلم
سید ابراہیم شاہ قادری خلیلؔ
حضرت پیر سید امیر شاہ قادری
حضرت پیر سید امیر شاہ قادری رحمۃ اللہ علیہ بنگلور کے تعلقہ رام نگر میں ۱۳۴۱؁ھ میں حضرت سید لطیف حسنی چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر تولد ہوئے۔ بچپن ہی سے بزرگانہ شان اور اعلیٰ صلاحیتوں کے سبب سب کی نگاہوں کا تارا بن گئے۔ آپ کی تربیت آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ رقیہ بی بی صاحبہ نے فرمائی۔ تقریباً چھ سال کی عمر ہی سے والد مکرم کے پیر و مرشد حضرت مذکر علی شاہ چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت فیض اثر میں حاضر ہونے اور دل و جان سے حضرت کی خدمت کرنے لگے۔ آپ کے والد گرامی کے برادرِ بزرگ بھی صاحبِ رشد و ہدایت تھے، لہذا حضرت مذکر علی شاہ کے وصال کے بعد آپ بہت دنوں تک تایا حضرت کی زیرتربیت رہے اور خدمت کرکے دعائیں حاصل کرتے رہے۔ آپ نے دینی تعلیم مقامی معلموں سے حاصل کی اور جب آپ کی عمر شریف پچیس برس ہوئی تو سادات گھرانے کی ایک نیک بی بی حضرت سیدہ غوثیہ بی صاحبہ سے حضرت پیر علیہ الرحمہ کا عقد کردیا گیا۔حضرت پیر سید امیر شاہ قادری رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت خواجہ سید محمد بادشاہ قادری چشتی یمنی قدیر رحمۃ اللہ علیہ سے شرف بیعت حاصل تھا۔ حضرت قدیر علیہ الرحمہ نے آپ کو سلسلہ قادریہ عالیہ خلفائیہ میں بیعت کرکے تمام رموز ہائے سربستہ سے واقف فرمایا۔ اس کے بعد آپ کو وہ سب کچھ مل گیا، جس کی ایک عرصہ سے آپ کو تلاش تھی۔ ہمیشہ ذکر الہٰی میں مشغول رہنے لگے۔ بیعت ہوکر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ پیرومرشد نے خلافت سے سرفراز فرمایا، اس طرح آپ نے خود کو پیرومرشد کی خدمت اور سلسلہ قدیری کے فروغ کے لئے وقف کردیا۔ پھر کافی عرصہ بعد پیرومرشد کا حکم پاکر کلمہ طیبہ کی روشنی اللہ تعالیٰ کے بندوں تک پہنچانے کے لئے نکلے اور اپنی تمام عمر اسی راہ میں صرف کردی۔آپ کو حضرت قدیر رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ سے جلالی اور جمالی دونوں کیفیتیں عطا ہوئیں۔ پیر و مرشد ہمیشہ آپ کو ’’پیر‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے اور ’’پیرؔ‘‘ تخلص اختیار کرنے کا حکم دیا۔ اسی مناسبت سے آپ ’’پیر صاحب‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت کا مجموعۂ کلام ’’یادگارِ پیر‘‘ کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ آپ کا وصال ۲۱؍ صفرالمظفر ۱۴۰۷؁ھ کو ہوا۔