فیصلہ لکھا ہوا رکھا ہے پہلے سے خلاف

   

اترپردیش میں پابندی … راہول اور پرینکا سے خوف
بابری مسجد کی پکار … ’’میرا سایہ ساتھ ہوگا‘‘

رشیدالدین
اقتدار کا نشہ جب سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے تو وہ دراصل زوال کے آغاز کی علامت ہے۔ نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت ناکامیوں کے پیچھے منہ چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کانگریس کے کمزور موقف کے باوجود بی جے پی کے اعصاب پر راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی سوار ہیں۔ دہلی اور اترپردیش میں حکومتیں گاندھی خاندان سے خوفزدہ دکھائی دے رہی ہیں۔ نریندر مودی اپنے وزیر باتدبیر امیت شاہ کی علالت کے چلتے تنہا ہوگئے اور اپنی طرح بیوی بچوں اور خاندان سے محروم یوگی ادتیہ ناتھ پر تکیہ کئے گئے ہوئے ہیں۔ عوام کے اچھے دن تو نہیں آئے لیکن عوام نے بی جے پی کے برے دنوں کی تیاری شروع کردی ہے۔ سیاست میں اکثر کہا جاتا ہے کہ عوام کو ایک بار ، دو بار بے وقوف بنایا جاتا ہے لیکن بار بار بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ دراصل عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور وہ مودی سے جملہ بازی کے بجائے عملی اقدامات کی مانگ کر رہے ہیں۔ نریندر مودی جو کبھی عوام کی پہلی پسند اور غیر معمولی مقبولیت حاصل کرچکے تھے ، اب اسی تیزی کے ساتھ مقبولیت کا گراف گھٹنے لگا ہے۔ مودی کے من کی بات پروگرام کا ابتداء میں خوب چرچا رہا لیکن جب سے مودی نے عوام کے من کی بات جاننے کے لئے اپنی جملہ بازی عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی اس وقت سے من کی بات پروگرام انتہائی ناپسندیدہ بن چکا ہے ۔ مودی کے کسی بھی ایونٹ کو کامیاب دکھانے کیلئے بی جے پی آئی ٹی سل کی سرگرمی کے باوجود حال ہی میں 1,30,000 سے زائد افراد نے من کی بات کو ناپسند کیا جبکہ صرف 10,000 افراد نے لائیک کیا۔ لائیک اور ڈس لائیک میں سوشیل میڈیا پر اس قدر بھاری فرق بی جے پی کیلئے نوشتہ دیوار ہے، جب کسی کو اقتدار اور کرسی سے محرومی کا ڈر ستانے لگتا ہے تو ہر شخص دشمن دکھائی دینے لگتا ہے ۔

کچھ اسی طرح گاندھی خاندان کا خوف بی جے پی اور نریندر مودی کے دل میں بیٹھ گیا ہے ۔ گزشتہ دنوں اترپردیش میں عصمت ریزی اور قتل کا شکار دلت لڑکی کے خاندان سے ملاقات کی کوشش پر راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ، وہ بی جے پی کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے ۔ گاندھی خاندان کے چشم و چراغ سرحد پر ممنوعہ علاقہ میں نہیں جارہے تھے کہ اجازت کی ضرورت ہو۔ اپنے ہی ملک میں سفر کرنے اور وہ بھی کسی غریب خاندان سے ملاقات کے مقصد سے جانے پر پابندی ناقابل فہم ہے۔ پولیس نے راہول گاندھی کے ساتھ جو سلوک کیا ، انتہائی شرمناک ہے۔ ظاہر ہے کہ یوگی ادتیہ ناتھ کے اشارہ پر ہی پولیس نے یہ حرکت کی ہوگی۔ اترپردیش جنگل راج میں تبدیل ہوچکا ہے۔ خواتین پر مظالم ، عصمت ریزی اور قتل کے واقعات نے مودی کے ’’بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ نعرہ کی قلعی کھول دی ہے۔ ملک میں بیٹی بچاؤ کا نعرہ دراصل حکومت کی جانب سے عوام کے لئے ایک وارننگ بن چکا ہے۔ برسر اقتدار پارٹی کے درندوں سے بیٹیوں کو بچانے کی تلقین کی جارہی ہے۔ جس ریاست میں ماں ، بیٹیوں اور بہنوں کی عزت محفوظ نہ ہو وہاں کے حکمراں کو اقتدار پر برقراری کا کوئی حق نہیں۔ جرائم کے مقابلہ میں اترپردیش نے ماضی کے ریکارڈ توڑ دیئے ۔

مسلمانوں پر حملے ، ہراسانی ، دینی مدارس پر پابندیاں ، مسلمانوں کی قیادت ختم کرنے کی سازش الغرض یوگی حکومت نے لاقانونیت کی تمام حدوں کو پار کردیا ہے۔ ان کی ریاست اور ان کی حکومت کی ناک کے نیچے دلت لڑکی پر ظلم ہوتا ہے لیکن مودی اور یوگی واقعہ کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ماں ، بہن اور بیٹی کے رشتوں کی اہمیت اور ان کی قدر و منزلت سے وہی واقف ہوتا ہے جو خاندان والا ہو۔ نریندر مودی اور یوگی کو نہ بیوی معلوم ہے نہ بہن ، ایسے میں بھلا وہ ان مقدس رشتوں کی اہمیت کیا جانیں ۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ مودی نے زندگی میں اپنی شریک حیات کے ساتھ جھولا نہیں جھلا ہوگا لیکن چین کے صدر کے ساتھ جھولے کا لطف اٹھایا۔ چین نے اس کا بدلہ ہندوستانی علاقہ پر قبضہ کے ذریعہ دیا ہے۔ الغرض گاندھی خاندان کے افراد کو اترپردیش پولیس نے روکا، جس خاندان کی ملک کیلئے قربانیاں ہیں۔ گاندھی خاندان کے دو وزرائے اعظم نے ملک پر اپنی جان نچھاور کردی۔ راہول گاندھی رکن پارلیمنٹ ہیں اور قائد اپوزیشن بھی اور پرینکا گاندھی کے ساتھ یوپی جانا ان کے لئے گھر جانے کی طرح ہے۔ اترپردیش ان کی آبائی ریاست ہے۔ بی جے پی یہ طئے کرے کہ وہ جمہوریت میں ہے یا پھر ملک میں ڈکٹیٹرشپ چل رہی ہے۔ بی جے پی کی اس غلطی کا خمیازہ بہار اسمبلی چناؤ میں بھگتنا پڑسکتا ہے۔

دوسرا موضوع جس پر ہم گفتگو کرنا چاہتے ہیں، اس کا تعلق بھی اترپردیش سے ہے۔ 28 سال قبل ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ داروں کو سی بی آئی کی خصوصی عدلت نے بری کردیا اور کہا کہ مسجد کو منصوبہ بند طریقہ سے ڈھانے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں اراضی کی ملکیت مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد یقین ہوچکا تھا کہ انہدام کیس کے تمام ملزمین بری ہوجائیںگے ۔ آخرکار ایسا ہی ہوا۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو کے فیصلہ پر ہمیں تو کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ مودی دور حکومت میں عدالت کا فیصلہ توقع کے عین مطابق ہے۔

سی بی آئی اور خصوصی عدالت نے غیر ضروری طور پر 28 سال ضائع کردیئے اور عوام کو اس دھوکہ میں رکھا کہ خاطیوں کو سزا ملے گی ۔ عدالت کا موقف اپنی جگہ لیکن بابری مسجد کے نام کے ساتھ ہر ذی شعور ہندوستانی کے ذہن میں 6 ڈسمبر کا دن اور انہدام کے ذمہ داروں کے چہرے ابھر آتے ہیں۔ ثبوت اور گواہ کے بغیر بھی ہر بچہ یہ کہہ سکتا ہے کہ جن کو عدالت نے بری کیا ، وہی مسجد کے قاتل ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ سپریم کورٹ کی طرح سی بی آئی عدالت بھی یہی کہتی کہ ملزمین کے خلاف مسجد کے انہدام کا ثبوت تو ہے لیکن عدالت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے تمام کو باعزت بری کرتی ہے۔ سپریم کورٹ نے مسجد میں مورتیوں کو غیر قانونی رکھنے کا اعتراف کیا اور یہاں تک کہا کہ مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں 6 ڈسمبر کو مسجد کا انہدام غیر قانونی قرار دیا گیا ۔ ان تمام باتوں کو قبول کرنے کے باوجود سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات کے تحت مکمل اراضی رام مندر کے حوالے کردی۔ مودی حکومت میں عدلیہ ، ثبوت اور گواہوں کے بجائے آستھا کی بنیاد پر فیصلے سنا رہی ہے۔ ملک کا یہ حال ہے کہ مجرموں کے خلاف ثبوت نہیں ملتے لیکن کئی بے قصور برسہا برس سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ دہلی میں اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعہ ہندوؤں کو مسلمانوں پر حملہ کیلئے اکسانے والے بی جے پی قائدین بے قصور رہے جبکہ این آر سی ، سی اے اے اور این پی آر کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو فسادات کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ مسجد کی شہادت کے بعد کئی قائدین نے برسر عام انہدامی کارروائی میں ملوث ہونے پر فخر کا اظہار کیا تھا۔ اتنا ہی نہیں سی بی آئی کے فیصلہ کے بعد بھی بعض ملزمین نے عدالت کے باہر اعتراف کیا کہ انہدامی کارروائی منصوبہ بند تھی لیکن یہ سب کچھ عدالت کو سنائی نہیں دیا۔ قانون کی آنکھوں پر پٹی تو سبھی نے دیکھی ہے

لیکن آج یہ پتہ چلا کہ قانون کے کان بھی بند ہیں۔ سی بی آئی پر ثبوت پیش کرنے میں ناکامی کا الزام ہے لیکن اس معاملہ میں خود جج صاحب ضمیر کی آواز پر خاطیوں کو سزا کا اعلان کرسکتے تھے کیونکہ ملزمین کو ساری دنیا جانتی ہے۔ حکومت نے دراصل سی بی آئی کے ذریعہ اس تقاضے کو کمزور کردیا اور تمام کی برات کی راہ ہموار کردی۔ ایل کے اڈوانی فیصلہ کے دن جس طرح تہوار کی طرح نئے لباس میں پورے اطمینان کے ساتھ فیصلہ کا انتظار کرتے دیکھے گئے ، انہیں اور دیگر ملزمین کے اطمینان کو دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ وہ فیصلہ سے واقف ہیں۔ پارٹی ، حکومت ، عدالت ، وکیل اور جج جب تمام ایک ہوجائیں تو پھر سزا کی امید کرنا فضول ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ آیا سی بی آئی ، خصوصی عدالت کے فیصلہ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گی یا نہیں، جب مسجد کے انہدام کے لئے کوئی ذمہ دار نہیں تو کیا کسی غیبی طاقت یا زلزلہ سے مسجد منہدم ہوگئی یا سنگھ پریوار کی آستھا کو دیکھ کر عمارت از خود زمین بوس ہوگئی۔ سپریم کورٹ نے جب انہدام کا اعتراف کیا تو پھر سی بی آئی عدالت کے پاس ملزمین بے قصور کیسے ہوگئے ؟ ایسا محسوس ہوا جیسے بی جے پی دفتر میں فیصلہ لکھا گیا اور جج کو صرف پڑھنا تھا۔ وظیفہ پر سبکدوشی کے دن جج ایس کے یادو نے فیصلہ سنایا۔ ہوسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی طرح ایس کے یادو بھی بہت جلد راجیہ سبھا میں دکھائی دیں گے۔ ’’تو جہاں جہاں چلے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا‘‘ کے فلمی نغمہ کی طرح بابری مسجد اپنے قاتلوں کا پیچھا کرتی رہے گی۔ ممتاز شاعر پروفیسر وسیم بریلوی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
فیصلہ لکھا ہوا رکھا ہے پہلے سے خلاف
آپ کیا خاک عدالت میں گواہی دیں گے