قرآنِ مجید آسمانی صحیفے اور مذہبی کتابیں

   

روئے زمین پر بے شمار مذاہب و ادیان ہیں اور متعدد مذاہب کے پاس ان کی مذہبی اور مقدس کتاب پائی جاتی ہے اور کئی مذاہب کو یہ دعوی ہے کہ ان کی کتاب آسمانی ہے ۔ جہاں تک آسمانی کتاب کا سوال ہے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ہم نے آپ پر وحی کی جس طرح ہم نے نوح اور اُن کے بعد انبیاء پر کی ہے ‘‘۔ (سورۃ النساء ؍۱۶۳)
مندرجہ بالا آیت سے واضح ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام پر وحی نازل فرمائی مگر ا سے ہر نبی پر کتاب کا نازل ہونا ثابت نہیں رہا ۔ قرآن مجید میں صرف چار انبیاء حضرات ابراہیم علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر صحفیوں کو نازل کرنے کا ذکر ملتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے : ’’یقینا یہ ابراھیم اور موسیٰ (لیھما السلام ) کے صحیفوں میں ہے ( سورۃ الاعلیٰ ؍۱۹) ، ’’اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی ‘‘۔ (سورۃ النساء ؍ ۱۶۳) ’’پھر ہم نے ان کے پیچھے رسولوں کو بھیجا اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو پیچھے مبعوث کیا اور ان کو انجیل عطا کی ‘‘۔(سورۃ الحدید ؍ ۲۷)
شرح فقہ اکبر میں (۱۰۴) آسمانی کتابوں کا ذکر ہے ۔ نیز حدیث شریف میں حضرت ابوذر غفاریؓ سے مروی ہے اُنھوں نے کہاکہ میں نے سورۃ الاعلیٰ کے نزول کے بعد رسول اﷲ ﷺ سے دریافت کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے کتنی کتابیں نازل کیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے ۱۰۴ کتابوں کو نازل فرمایا ۔ ان میں سے دس صحیفے حضرت آدم پر نازل کئے ، پچاس صحیفے حضرت شیث پر نازل ہوئے ، تیس صحیفے حضرت ادریس پر نازل ہوئے ، دس صحیفے حضرت ابراھیم پر اور چار کتابیں تورات ، زبور ، انجیل اور قرآن مجید نازل ہوئے ۔
حضرت آدم علیہ السلام اور آپ کے صاحبزادے حضرت شیث علیہ السلام پر نازل شدہ صحیفوں کا دنیا میں کوئی وجود نہیں رہا یہاں تک کہ کسی کو یہ تک نہیں معلوم کہ وہ کس زبان میں نازل ہوئی تھیں۔
جامعہ نظامیہ کے قابل فخر سپوت ڈاکٹر محمد حمیداللہ (پیرس) جو بیسویں صدی کے عظیم اسلامی محقق جانے جاتے ہیں اُنھوں نے تاریخ قرآن مجید پر ایک پرمغز معلومات آفریں مقالہ پیش کیا جس میں انھوں نے قرآن مجید کے علاوہ دیگر آسمانی اور مذہبی کتابوں پر جامع انداز میں بحث کی ہے ۔
حضرت ادریس پر نازل شدہ صحیفوں پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’غالباً یہ آپ نے سنا ہوگا کہ فلسطین میں بحرمردار کے پاس بعض غاروں میں کچھ مخطوطے ہیں ، ان مخطوطوں میں سے ایک کتاب حضرت اخنوخ یا انوخ یعنی حضرت ادریس علیہ السلام کی کتاب منسوب ہے ۔ حال ہی میں اس کتاب کے کچھ ترجمے انگریزی زبان میں شائع ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس بات کا کوئی حتمی و قطعی ثبوت موجود نہیں لیکن اب تک کی تحقیق کے مطابق اس کو قدیم ترین نبی کی کتاب کہہ سکتے ہیں ‘‘۔ آپ آگے رقمطراز ہیں: ’’عراق میں صابیہ کے نام سے ایک چھوٹا سا گروہ پایا جاتا ہے ، جس کا ایک مستقل دین ہے ، ان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ حضرت نوح کی کتاب اور ان کے دین پر عمل پیرا ہیں۔ ایک زمانہ میں حضرت نوح کی پوری کتاب ان کے پاس موجود تھی لیکن امتداد زمانہ کے سبب اب وہ ناپید ہے ، اس کے مندرجات صرف چار پانچ سطروں میں ہمارے پاس موجود ہیں ، جس میں اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے ‘‘۔
حضرت ابراھیم پر صحیفوں کو نازل ہونے کی شہادت قرآن و حدیث میں ملتی ہے لیکن دنیا میں ان کا وجود باقی نہ رہا ۔ اس طرح بعض ایسے بھی انسان گزرے ہیں جن کو صراحت کے ساتھ نبی تسلیم نہیں کیا جاسکتا ، اُن میں ایک شخصیت ’’زرتشت‘‘ کی ہے پارسی اُنھیں اپنا نبی مانتے ہیں اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ ان کی نبوت کے امکان کو اس لئے تسلیم کرتے ہیں کہ قوم مجوس کا ذکر قرآن میں آیا ہے ۔ علاوہ ازیں مجوسیوں کا مذہب زرتشت کی لائی ہوئی کتاب ’’آوستا‘‘ پر مبنی ہے ۔ ’’آوستا‘‘ کتاب پر ڈاکٹر محمدحمیداللہ لکھتے ہیں : ’’زرتشت کی کتاب اس وقت کی زندزبان میں تھی، کچھ عرصے بعد ایران پر دوسری قوموں کا غلبہ ہوا اور نئے فاتحین کی زباں وہاں رائج ہوئی۔پرانی زبان متروک ہوگئی۔نتیجہ یہ ہوا کہ ملک بھر میں مٹی بھر عالم اور متخصصین کے سوا زند زبان جاننے والا کوئی نہ رہا اس لئے زرتشی مذہب کے علماء نے نئی زبان پازند میں اس کتاب کا خلاصہ اور شرح لکھی ۔ آج کل ہمارے پاس اس نسخے کا صرف دسواں حصہ موجود ہے باقی سب غائب ہوچکا ہے ۔ اس دسویں حصے میں کچھ چیزیں عبادات کے متعلق ہیں اور کچھ دیگر احکام ہیں۔ بہرحال دنیا کی ایک قدیم ترین کتاب کو ہم ’’آوستا‘‘ کے نام سے جاتے ہیں ، لیکن وہ مکمل حالت میں ہم تک نہیں پہنچ سکی ۔ یہاں ایک اور چیز کا میں ذکر کرونگا آوستا میں دوسری باتوں کے علاوہ زرتشت کا بیان ملتا ہے : ’’میں نے دین کو مکمل نہیں کیا میرے بعد ایک اور نبی آئیگا جو اس کی تکمیل کریگا اور اس کا نام ’’رحمۃ للعلمین‘‘ ہوگا ‘‘۔
رگ وید : ہندومت کی تمام مذہبی کتابوں میں سب سے قدیم و مقدس مانے جانے والی کتاب ’’رگ وید‘‘ ہے لیکن جس طرح تورات ، زبور ، انجیل اور قرآن ایک مخصوص و متعین نبی پر نازل ہوئے ۔ ان آسمانی کتابوں کو لانے والوں کے نام ، سیرت سے تمام دنیا واقف ہے ۔ ایسا معاملہ ’’رگ وید‘‘ یا دیگر ویدوں کا نہیں ۔ مصدقہ طورپر کسی ایک شخص کو اس کا مؤلف متعین نہیں کیا جاسکتا ۔
ان ویدوں میں روایتی داستانیں(Legends) مذہبی قیاس آرائیاں (Theological Speculation) یا مذہبی عقائد پر تبصرے بیان کئے گئے ہیں جن کی صداقت پر ہمیشہ مشکوک تبصرے ہوئے ہیں۔ بناء برین یہ تاریخی اہمیت کے حامل نہیں رہیں۔
ابتدائی ویدک دور میں ویدوں کے اقتباسات کو سینہ بہ سینہ پڑھادیا جاتا تھا ۔ ان ویدوں کی ابتداء یا ان کے مصنف کے تعلق سے تاریخ میں کہیں بھی کوئی مستند حوالہ ترقیم نہیں ہے اور محققین کی تحقیق کی بناء پر ویدوں کا زمانہ گیارہ سو سال قبل مسیح ہے ۔
پیرس کے مشہور مذہبی اسکالر A.Barth اپنی مایہ ناز تصنیف “The Religion of India” میں رقمطراز ہیں : ’’ویدوں میں موجود روایتی داستانوں ، تبصروں ، واقعات ، اس میں مذکورہ مقامات کے نام اور اس زمانہ کے نامور ہیروز اور زبان پر غورو خوض اور بحث و تحقیق کرنے کے بعد اسکالرس اس نتیجے پر پہنچے کہ ان ویدوں کے آغاز کی جگہ وادی کابل اور دریائے گنگا کے درمیان کا علاقہ ہے اور اس کا حقیقی مبداء پنجاب ہے ۔
ڈاکٹر محمد حمیداﷲ ہندوؤں کی مقدس کتابوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’بہرحال دس پران ہیں ان میں سے ایک میں یہ ذکر آیا ہے۔ آخری زمانے میں ایک شخص ریگستان کے علاقے سے پیدا ہوگا اس کی ماں کا نام ’’قابل اعتماد‘‘ اور باپ کا نام ’’عبداﷲ ‘‘ ہوگا جو اپنے وطن سے شمال کی طرف جاکر بسنے پر مجبور ہوگا اور پھر وہ اپنے وطن کو متعدد بار دس ہزار آدمیوں کی مدد سے فتح کریگا ، جنگ میں اس کے رتھ اونٹ کھینچیں گے اور وہ اونٹ اس قدر تیز ہونگے کہ آسمان تک پہنچ جائیں گے ۔ ا س میں نبی کریم ﷺ کی طرف اشارہ ہے ۔