قرآن حکیم کی ایک سورۃ اور فیض ؔکی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘

   

سید یعقوب شمیم
قرآن حکیم کی سورۃ القارعہ میں فرمایا جارہا ہے (ترجمہ)
وہ کھڑکھڑانے والی چیز کیسی کچھ ہے، وہ کھڑ کھڑانے والی چیز اور آپؐ کو معلوم ہے کیسی کچھ ہے، وہ کھڑکھڑانے والی چیز۔ جس روز آدمی پریشان پروانوں کی طرح ہوجائیں گے اور پہاڑ دھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے اور پھر روزن اعمال کے بعد جس شخص کا پلہ (ایمان کا) بھاری ہوگا تو وہ خاطر خواہ آرام میں ہوگا، یعنی (ناجی) ہوگا اور جس شخص کا پلہ (ایمان کا) ہلکا ہوگا یعنی وہ کافر ہوگا تو اس کا ٹھکانہ ہادیہ ہوگا اور آپؐ کو معلوم ہے وہ ہادیہ کیا چیز ہے (وہ) ایک دہکتی ہوئی آگ ہے۔
اس سورۃ قرآنی کے پس منظر میں جب ہم فیض کی وہ مشہور زمانہ نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ پڑھتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر نے روزِ محشر یعنی قیامت کا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے کھینچ دیا ہے۔ وہ اک روز جو کہ یقینا آنے والا ہے، ایسا ہوگا کہ نوع انسانی پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے بھاری پہاڑ روئی کی طرح اُڑجائیں گے یعنی باقی نہیں بچ پائیں گے کیونکہ یہ بات ’’لوح ازل‘‘ میں لکھی جاچکی ہے کہ ایسے حاکم جو غریبوں اور محکوموں پر ظلم و ستم ڈھاکر یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری حکومت مضبوط و مستحکم ہے اور ہم جیسا چاہتے ہیں اپنے بل بوتے پر احکام نافذ کرکے ہی رہیں گے، گویا وہ ایک طرح سے خوش فہمی میں مبتلا ہیں اور نہیں جانتے بقول شاعر
ہم محکوموں کے پاؤں تلے یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑکڑ کڑکے گی
تو پھر یہ لازم ہے کہ ارض خدا کے کعبے سے یعنی
اس سرزمین سے ’’سب بت‘‘ اُٹھوائے جائیں گے
اور ہم اہل صفا مردودِ حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے
گویا ظلم و استبداد کے خلاف عوام کی آواز بلند ہوگی اور حکمرانوں کو اپنے من مانے فیصلوں کو عوام پر نافذ کرنا ممکن نہ ہوسکے گا جس کے نتیجے میں صرف اللہ کا نام ہی باقی رہ جائے گا۔
بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اور شاعر نے اس طرح بات بڑھانے کی کوشش کی ہے کہ عوام الناس ’’انالحق‘‘ کا نعرہ لگانے لگ جائے گی یعنی ناحق کی چیرہ دستیوں کے بعد ایک بار پھر سے حقیقی معنوں میں خلق خدا راج کرے گی۔ خلق خدا ’’جو تم بھی ہو اور میں بھی ہوں ’’یعنی خالصتاً ایک ایسے جمہوری معاشرے کا قیام عمل میں آنے کے روشن امکانات پیدا ہوجائیں گے جہاں کوئی کسی کا استحصال نہیں کر پائے گا اور لوگ محنت اور ایمانداری کے بل بوتے پر کامیاب اور کامران ہوسکیں گے۔
فیض پر جب ملک دشمنی کا مقدمہ چلا اور ایسے الزامات لگائے گئے جو سراسر بے بنیاد تھے تو انہوں نے کہا
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں
وہ بات ان کو بڑی ناگوار گزری ہے
یا پھر جب ان سے کہا گیا تھا کہ بات اگر اشارے میں کہی جائے تو اس میں وضاحت پیدا نہیں ہوتی بلکہ ایک طرف کا ابہام راہ پاتا ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شعر زماں و مکاں کی قید سے آزاد ہوکر لوگوں کے سَر چڑھ کر جادو جگانے لگتا ہے۔ فیضؔ نے اس بات کو اس طرح واضح کیا ہے کہ جب ان کے ملک میں ان پر پابندی عائد کی گئی تو انہوں نے اس کا ذکر صاف لفظوں میں نہیں کیا بلکہ رمز و کنائے کا سہارا لے کر کہی۔
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبوئی ہے اُنگلیاں میں نے
یا پھر اس طرح کہا
لبوں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ظلم و استبداد کے بل پر زبان پر پابندی تو لگائی جاسکتی ہے مگر زنجیر کے جھنکار کو کہاں چھپایا جاسکتا ہے کیونکہ جب زنجیر کھنکے گی تو ہر ایک کو معلوم ہوجائے گا کہ کسی کو پابہ زنجیر کردیا گیا ہے۔
مندرجہ بالا دونوں اشعار کسی خاص ملک یا کسی خاص زمانے کی بات نہیں کرتے بلکہ جب جب جہاں جہاں زبانوں پر پابندی کی کوشش کی جائے گی لوگوں کو وہاں وہاں یہ اشعار یاد آجائیں گے۔
فیض احمد فیضؔ بھی اقبال کی طرح اپنے دور کے ایسے بڑے شاعر ہوئے ہیں جنہوں نے غزل اور نظم جیسی دونوں اصناف کی طرف توجہ کی ہے اور امتیاز حاصل کیا لیکن غزل چونکہ فلسفہ اور کسی خاص طرز اظہار کی متحمل نہیں ہوسکتی، اس لئے انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی نظم گوئی کی طرف توجہ دینی پڑی اور انہوں نے اپنی نظموں میں زیادہ سے زیادہ امیجری استعارہ اور تشبیہ جیسی فنی لوازمات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے کلام میں دلکشی اور رعنائی پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ اس دور میں جبکہ ابھی وہ کالج ہی میں پڑھتے تھے، انہوں نے وہ نظمیں کہی ہیں جو ان کے مجموعہ کلام ’’نقش فریادی‘‘ کے حصہ اول میں شامل ہیں اور جن کی عوامی اعتبار سے بہت ہی پذیرائی ہوئی۔ وہ مظلوموں کی حمایت سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے اور ملک و قوم کی سرفرازی کی آرزو ان کے دل سے محو نہیں ہوئی۔ انہوں نے جو کچھ کہا، وہ علامت و استعارے کے پردے میں کہا جب وہ محبوب کا ذکر کرتے تو ان کا مقصد ہوتا ہے قوم و ملک، اسی طرح جب رقیب کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ان کا مطلب ہوتا ہے کہ ملک و ملت کا دشمن اور صہبا ان کے یہاں امن و خوشحالی کی پیغامبر ہے تو بہار آزادی و شادمانی کی مظہر ہے یہ کہا جاتا ہے کہ فیضؔ کی شاعری کا کینوس اگرچہ محدود ہے لیکن انہوں نے اس مختصر میدان ہی میں کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے جس کے سبب فیض کا شمار ہماری زبان کے چند بڑے شاعروں میں ہوگیا ہے۔