قومی شہریت (ترمیمی) بل کو نافذ کرنے سے کیسے روکا جائے

,

   

بی جے پی نے اپنے خفیہ ایجنڈا “بھارت ہندو راشٹر” کے تحت C, A, B کو اپنی کابینہ سے پاس کرلیا ہے، اب عنقریب پارلیمنٹ میں پیش کرنے والی ہے تاکہ اسے پورے میں نافذ کرکے کروڑوں مسلمانوں کو ہندوستان سے بےدخل کیاجاسکے۔

دوسری طرف سوشل میڈیائی مجاہدین یہ سمجھ رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر شور شرابہ کرنے یا کسی پارٹی کو کوسنے سے یہ بل پاس ہونے سے رک جائے گا۔

 یادرہے کہ کسی پارلیمانی بل کے پاس ہونے یا نہ ہونے میں سوشل میڈیائی ہنگامہ آرائیوں کا کچھ دخل نہیں اور صرف سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ دھرنا دینے حتی کہ چند ممبروں کے پارلیمنٹ میں چلالینے سے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا۔

پارلیمنٹ میں کسی بل کا پاس ہونا یا نا ہونا پارلیمانی ممبران کی اکثریت کی موافقت کا مخالفت پر موقوف ہے۔

 پارلیمنٹ سے C،A،B کو پاس کروانے کے مرحلے

بی جے پی کو یہ بل نافذ کرنے میں دومرحلوں سے گزرنا پڑے گا۔

(1) لوک سبھا (ایوان زیریں) میں اکثریت کی حمایت حاصل کرنی پڑے گی ۔

(2) راجیہ سبھا(ایوان بالا) سے بھی اکثریت کی حمایت درکار ہوگی، اگر بی جے پی اس بل کو دونوں ایوان سے پاس کروالے پھر وہ اسے آسانی سے پورے ملک میں نافذ کردےگی۔

 لوک سبھا اور راجیہ سبھا

 لوک سبھا(ایوان زیریں) کی بات کریں تو وہاں فی الحال 543 ممبر ہیں، جن میں سے کم از کم 272 ممبر کی حمایت اس بل کو درکار ہوگی اور بی جے پی کے پاس لوک سبھا میں خود کے 303 ممبر ہیں، پھر ایسی صورت میں لوک سبھا میں اس بل کو پاس ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

 راجیہ سبھا(ایوان بالا) کی اگر بات کی جائے تو وہاں کل 245 ممبر ہیں، جن میں سےکم از کم 123 ممبروں کی منظوری درکار ہوگی، جبکہ وہاں بی جے پی کے پاس فقط 83 ممبر ہیں، پھر ایسی صورت میں اگر مخالف پارٹیاں متحد ہوجائیں تو اس بل کو نافذ ہونے سے روکا جاسکتا ہے اور یہی واحد طریقہ ہے اس بل کو روکنے کا، اگر ایسا ہوا تو پھر بی جے پی لاکھ شور مچالے کسی قیمت پر اس بل کو نافذ نہیں کرسکتی۔

 لائحہ عمل

 اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس بل کو نافذ ہونے سے روکیں تو ہمیں اجتماعی اور انفرادی دونوں طریقے سے بی جے پی مخالف تمام پارٹیوں سے رابطہ کرکے اس بل کی مخالفت کی اپیل کرنی پڑے گی اور صرف پارٹیوں سے ہی نہیں بلکہ اپنے اپنے علاقوں کے راجیہ سبھا ممبروں سے بالمشافہ ملاقات کرکے نرمی یاگرمی جیسے بھی ہو اس بل کی مخالفت کے لیے انہیں تیار کرنا پڑے گا۔

مسلمانوں کی جتنی بھی دینی، سماجی اور سیاسی چھوٹی بڑی تنظیمیں ہیں انہیں فورا حرکت میں آنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بل کے راجیہ سبھا میں پیش ہونے سے پہلے پہلے اپنا کام پورا ہوجائے۔ اگر یہ حربہ کامیاب ہوا تو ان شاءاللہ یہ بلا ہندوستانی مسلمانوں کے سر سے بآسانی ٹل جائے گی ۔