لاک ڈاؤن نے عقل کو بھی لاک کردیا

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ میں کورونا وائرس کے اثرات زیادہ نہیں ہیں بلکہ پورے ہندوستان میں کورونا وائرس کے کیسوں کی تفصیلات وزارت صحت کے پاس ہے ۔ اس نے جو تعداد بتائی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں صرف 2.6 فیصد ہی افراد متاثر ہیں جب کہ دیگر ممالک میں بہت زیادہ واقعات ہوئے ہیں ۔ اٹلی میں اموات کی شرح 10 فیصد بتائی گئی ہے ۔ ہندوستان میں کورونا وائرس کا مسئلہ زیادہ تشویشناک نہیں تھا لیکن جیسے ہی تبلیغی اجتماع کا مسئلہ سامنے آیا تو سارے ملک میں دھنڈورا پیٹنے والے میڈیا نے کورونا وائرس کو مسلمانوں سے جوڑدیا ۔ یہ وائرس سارے دنیا میں پھر کر جب ہندوستان آیا تو یہاں کے میڈیا والوں نے اسے مسلمان بنادیا ۔ گویا یہ وائرس مسلمان ہی لے کر پھر رہے ہیں ۔ تبلیغی اجتماع میں شرکت کرنے والوں کا تعاقب کرنے میں اپنی ساری توانائی خرچ کرنے والے میڈیا اور حکومتوں نے یہ کہانیاں بنانی شروع کردی کہ دہلی کے مرکز نظام الدین میں کثیر تعداد میں جمع افراد کی وجہ سے کورونا وائرس متاثرین کی تعداد میں اضافہ کا اندیشہ ہے ۔ مرکزی حکومت نے اچانک 21 دن کا لاک ڈاؤن کردیا جو اب دوسرے ہفتہ میں داخل ہوچکا ہے ۔ وزیراعظم مودی کے رات 8 بجے لیے گئے اس فیصلے سے پھر ایک بار سارا ملک حکومت کے تابع کھڑا ہوگیا ۔ نوٹ بندی کے فیصلہ ہو یا جی ایس ٹی کا فیصلہ اور اب لاک ڈاؤن کا معاملہ یہ ایسے فیصلے ہیں جو اس ملک کے عوام کو برسوں یاد رہیں گے۔ تلنگانہ میں خاص کر شہر حیدرآباد میں دہلی کے مرکز نظام الدین کے اجتماع میں شرکت کرنے والے افراد کی موت کے باعث تشویش پیدا ہوگئی ۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو مسائل پریشانیاں سامنے آرہی تھیں ان پر پردہ ڈالنے کے لیے سرکاری مشنری اور اس کے ہمنوا میڈیا نے تبلیغی اجتماع کی ریل چلا دی اور مرکزی وزیر اقلیتی بہبود نے بھی اس اجتماع کو طالبانی غلطی قرار دے کر مرکزی کابینہ میں وجود کو برقرار رکھنے کے لیے مودی حکومت کا حق نمک ادا کردیا ۔

تلنگانہ میں ایک طرف عوام لاک ڈاؤن سے پریشان ہیں ۔ روزی سے محرومی کا درد اور اپنوں کی علالت کی فکر نے بے دم کردیا ہے ۔ ایسے میں پولیس کی زیادتیوں کے واقعات بھی دلسوز ہیں ۔ کوئی بھی شہری اپنے گھر کے سامنے غلطی سے کھڑا ہوجائے تو پولیس کے ڈنڈے پڑ رہے ہیں ۔ پولیس نے حد سے زیادہ پھرتی دکھا کر ڈنڈے برسانے شروع کئے ہیں ۔ ایسے ہی واقعہ میں ایک سب انسپکٹر کو معطل کردیا گیا ۔ اس کی بربریت کا ویڈیو جیسے ہی وائرل ہوا اعلیٰ حکام نے اسے معطل کردیا ۔ شہر حیدرآباد میں پولیس کا رول ہو یا تلنگانہ کے کسی بھی ضلع میں اس محکمہ کے لوگوں کی زیادتیوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ کھمم میں پولیس سب انسپکٹر نے گھر کے سامنے بیٹھنے والے چند افراد کو اس بے دردی سے مارا کہ دیکھنے والے لرز اٹھے ۔ تلنگانہ میں پولیس کے رول کو سامراجی دور کے سپاہیوں کے رول سے تعبیر کیا جانے لگا ہے ۔ لاک ڈاؤن کے لیے حکومت کے فیصلے سرکاری مشنری کے بعض عہدیداروں کے لیے ظلم کرنے لائسنس بن گئے ہیں ۔ لاک ڈاؤن اور کرفیو کے نفاذ سے قطع نظر اس ریاست اور ملک میں صحت کے نظام کی زبوں حالی کو محسوس کرنے کی ذمہ داری بھی بھول گئے ہیں ۔ کورونا وائرس سے متاثرین کا پتہ چلانے میں یہ حکومتیں ناکام ہورہی ہیں ۔ آپ ذرا توجہ دیں تو اندازہ ہوگا کہ چین سے نکل کر یوروپ اور وہاں سے بڑھ کر اب امریکہ پہونچنے والا کورونا وائرس اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ امریکہ کے شہریوں کو متاثر کرچکا ہے ۔ غور طلب امر یہ ہے کہ امریکہ میں اب تک جن افراد کے ٹسٹ کروائے گئے ہیں ان میں سے 53 فیصد کا نتیجہ پازیٹیو پایا گیا ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ میں بہت بڑے پیمانے پر عوام کے ٹسٹ کیے جارہے ہیں تاہم پازیٹیو نتائج کی شرح سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ وباء امریکہ میں کس قدر پھیل چکی ہے اور مسلسل پھیلتی جارہی ہے ۔ ہندوستان میں عوام کے جو ٹسٹ کئے جارہے ہیں ان میں اب تک صرف 2.8 فیصد شرح متاثر ہوئی ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو یہاں کے ٹسٹ کرانے کے آلات صحیح نہیں ہیں یا پھر کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ نہیں ہے لیکن یہ حقیقت سے سب واقف ہیں کہ ہندوستان اور اس کی ریاستوں میں صحت عامہ سے متعلق کتنے انتظامات ہیں ۔ یہاں ٹسٹ کٹس اور طبی سہولتیں کی کمی ہے ۔ لوگوں میں اس وائرس کی جانچ بھی کافی محدود پیمانہ پر کی جارہی ہے ۔ یہ ہلاکت خیز وائرس بلا رنگ و نسل اور قوم و مذہب کا امتیاز کیے بغیر ہر اس فرد پر حملہ آور ہورہا ہے جو اس سے رابطہ میں آنے کی غلطی کر بیٹھتا ہے ۔ لیکن ہندوستانی ٹی وی چیانلوں اور حکومتوں کے بعض افراد نے کوروناء وائرس کو مسلمانوں سے جوڑنے کی حماقت کرتے ہوئے دہلی کے نظام الدین مرکز کے تبلیغی اجتماع میں شریک لوگوں کو نشانہ بنایا ۔ میڈیا اس طرح کا خوف پھیلا کر وائرس کو مسلمانوں سے مربوط کررہا ہے ۔ سپریم کورٹ نے بھی یہ کہدیا ہے کہ وائرس کے بارے میں خوف پھیلانے سے زیادہ سے زیادہ تباہی ہوسکتی ہے ۔ اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام میں حوصلہ پیدا کرنے کے بجائے فرقہ وارانہ رنگ دے کر خوف پیدا کرنا بدبختانہ اور فرقہ وارانہ حرکت ہے ۔ دنیا بھر میں کوشش کی جارہی ہے کہ اس وائرس کو جلد سے جلد قابو پایا جائے لیکن یہاں کا نظم و نسق اپنی حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی فکر کے ساتھ کام کررہا ہے ۔ تبلیغی جماعت کے خلاف پروپگنڈہ فوری بند کر کے اصل مسئلہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ شدید نازک کیس کورونا وائرس سے تبلیغی اجتماع نہیں ، تبلیغی لوگوں کے بارے میں برا بھلا کہنے والوں کی بے غیرتی دیکھ کر افسوس ہوتا ہے ان اللہ کے بندوں کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے اس سے کئی لوگوں کو دکھ ہوا ہوگا ۔ یہ اجتماع دینی نوعیت کا ہر سال بلکہ ہمیشہ جاری رہتا ہے ۔ پرامن ہونے کے ساتھ اپنا اثر بھی رکھتا ہے لیکن گودی میڈیا نے اسے لاوارث سمجھا ہے ۔ اگر اس ملک کے ذمہ داروں اور ان کی بانسری بجانے والا میڈیا مسلم جماعت کو لاوارث سمجھتا ہے تو اس کی بھول ہے ۔

اگر کورونا وائرس ان تبلیغی لوگوں کی وجہ سے پھیلا ہے تو ان عقل کے اندھوں سے سوال کیا جائے کہ آیا چین ، اٹلی ، اسپین ، امریکہ ، برطانیہ اور ایران عرب ممالک میں یہ وائرس کس طرح پھیلا ہے ۔ تبلیغی اجتماع کے خلاف پروپگنڈہ کرنے والے جھوٹ بول رہے ہیں اور اپنے پیشے کی توہین کررہے ہیں ۔ کورونا وائرس نے سارے ہندوستان کو لاک ڈاؤن کردیا اور اس کی سرحدیں بند کردی گئی ہیں کئی ہندوستانی طلباء بیرونی ملکوں میں پھنسے ہوئے ہیں جب بیرونی ممالک کورونا وائرس کے خلاف جنگ کررہے ہیں تو وہاں پر ہندوستانی طلباء کا بھی خاص خیال رکھا جارہا ہے ۔ اس کے برعکس ہندوستان میں تبلیغ کے لیے پہونچنے پر ان شہریوں کو مشکوک بنا کر ان کے ویزے منسوخ کردئیے گئے بلکہ ان کو بلیک لسٹ بھی کردیا گیا ۔ بیرون ملکوں میں ہندوستانی طلباء جن مصائب کا شکار ہیں یہاں کے میڈیا کو اس کا احساس ہی نہیں ہے ۔ تلنگانہ انفارمیشن ٹکنالوجی اسوسی ایشن نے بیرونی ملک پھنسے طلباء اور افراد کی مدد کرنا شروع کی ہے ۔ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں اپنی کوششوں کو جاری رکھا گیا ہے ۔ سافٹ ویر پروفیشنلس انڈسٹری یا تلنگانہ انفارمیشن ٹکنالوجی اسوسی ایشن نے عالمی سطح پر کئی افراد کو بچانے اور ان کے مواضعات تک خبریں پہونچانے کا کام شروع کیا ہے ۔ این آر آئیز اور گھر سے کام کرنے والوں ڈاکٹروں ، تغذیہ کے ماہرین ، پرسنالٹی ڈیولپمنٹ پرسونل اور دیگر ماہرین نے اپنے خیالات کے ذریعہ کورونا وائرس پر قابو پانے کی تدابیر بیان کرتے ہوئے عوام کی مدد کررہے ہیں لیکن حکومت کی سطح پر اور اس کے گن گانے والے میڈیا کے اینکرس نے جو روش اختیار کی ہے وہ سراسر اس ملک کے مستقبل کے لیے ٹھیک نہیں ہے ۔ ایسے ٹی وی چیانلوں اور ان کے اینکرس پر تنقید کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ وائرس کے پھیلاؤ کے بعد انہیں کوئی مسالہ دار خبریں نہیں مل رہی تھیں اور یہ اینکرس سوکھے منہ سے اس قدر کمزور نظر آرہے تھے کہ جیسا کہ یہ لوگ ایڈس کے مریض ہیں ۔ اب ان کے لیے نظام الدین مرکز کا معاملہ ہاتھ لگا تو ٹی وی اسکرین پر اس قدر اچھل کود کرنے لگے جیسے کسی بھوکے بندر کو مونگ پھلی ملنے پر اچھلنے لگتا ہے ۔