لاک ڈاؤن : کچھ تو ہوں گی آپ کی مجبوریاں

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
لاک ڈاؤن میں توسیع کے لیے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی اپیل نے کورونا وائرس کے سنگین اثرات کا اشارہ دیدیا ہے ۔ کل تک وہ کہہ رہے تھے کہ تلنگانہ میں 7 اپریل تک کورونا وائرس سے پاک ماحول ہوجائے گا ۔ لوگوں کو لاک ڈاؤن کی تکالیف سے چھٹکارا مل جائے گا ۔ لیکن 7 اپریل کے گذرنے تک چیف منسٹر کے سی آر کی رائے بدل گئی اور انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن میں اضافہ نہیں کیا گیا تو پھر انسانوں کے مرنے کی تعداد افسوسناک حد تک بڑھ جائے گی ۔ یہ وباء آدمی سے آدمی کو کھائے جارہی ہے کچھ تو تحقیق کرتے ہوئے دوا کی ایجاد ضروری ہے ۔ لاک ڈاؤن نے جہاں غریبوں کے چولھے بجھا دئیے ہیں وہیں امیروں کو شہر کی سنسان سڑکیں بند ہوٹلیں اور ویران تفریح گاہیں اتنا درد دے رہی ہیں کہ ان کی مست نگاہیں مرجھا گئی ہیں اور ہر رگ میں محشر برپا ہے ۔ لاک ڈاؤن سے ہر شخص پریشان ہے ۔ غریب کو تو پھر بھی اپنی غربت کا صلہ کہیں نہ کہیں کسی سخی کے ہاتھ سے مل جائے گا ۔ مسئلہ متوسط طبقہ کا ہے جو لاک ڈاؤن میں وہ گویا صحرا کی ریت پہ ہوا کی لکیر کی طرح جی رہے ہیں ۔ اس کورونا وائرس نے ان کے چہروں پر نقاب تو ڈال دیا ہے ۔ ورنہ وہ اس لاک ڈاؤن کی مار سے چہرے پر ابھرنے والے درد کے نشان ، اس سماج کے سامنے ظاہر ہونے کی فکر سے ہی مرجاتے ۔ چیف منسٹر نے تو غریبوں کے لیے پیاکیج کا اعلان کر کے کچھ دیر کے لیے جھوٹی آس تو باندھی ہے لیکن ان پیاکیجس کے انتظار میں بیٹھی غریب عورتیں ، ضعیف عورتیں ، معصوم بچوں کو راشن کی دکان سے مایوس ہونا پڑرہا ہے ۔ 1500 روپئے دینے کا وعدہ بھی کسی کے ہاتھوں کو راس آیا ہوگا یہ کسی کو خبر نہیں ہے ۔ یہ حکمراں لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے جذبوں کے مگر عملی مظاہرہ بے معنی دکھائی دیتا ہے ۔ ان کے وعدوں کو یاد دلاتے دلاتے غریبوں کی آنکھ بھر آرہی ہے مگر انہیں شرم نہیں آئے گی ۔ یہ وقت لاک ڈاؤن کی توسیع کی خواہش کرنے سے زیادہ کورونا وائرس پر قابو پانے اور اس سے احتیاط برتنے کے لیے اقدامات کرنے کا تھا مگر چیف منسٹر نے وباء کی روک تھام کے لیے انتظامات کرنے کے بجائے لاک ڈاؤن میں توسیع پر زور دیا ۔ وہ تو کہہ رہے تھے کہ 7 اپریل کے بعد ریاست میں کورونا وائرس کا کوئی مریض نہیں ہوگا اگر اب کوئی نیا کیس آ بھی جائے تو اس لاک ڈاؤن کی مدت میں ہی اس وائرس کو قابو میں کرلیا جائے گا مگر اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وائرس نے چیف منسٹر کے عزم کو مات دیدی ہے ۔ محکمہ صحت کے موثر انتظامات بھی اس وائرس کے آگے کمزور پڑ گئے ہیں ۔ اس لیے 14 اپریل کے بعد بھی عوام کو مزید دو ہفتوں کے لاک ڈاؤن کی مار کھانی پڑے گی ۔ اگر آنے والے 15 دنوں میں بھی کورونا وائرس کا قہر کم نہیں ہوا تو پھر سارا ماہ مئی گھروں میں بند رہ کر گذرانا پڑے گا ۔ ان حالات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ اس سماج کو بد دعاوں کا سامنا ہے ۔ لاک ڈاؤن میں شب برات گذر چکی ہے اب شب قدر کا انتظار ہے ۔ شہر ہو یا ٹاؤن گاؤں ہو یا بستی ہر مکین کو اپنی حیات پر پڑنے والے وباء کے سایوں کی فکر ہے ۔ دیہی عوام نے وائرس کو شکست دینے کے لیے اپنے گاؤں کی سرحدیں بند کرلی ہیں ہر گاڑی کے داخلے پر لوگوں کو روکا جارہا ہے ۔

اس قدر احتیاط کے باوجود وائرس پر قابو پانے میں ناکامی تشویشناک بن رہی ہے ۔ ریاست میں اس وباء کے خلاف جنگ میں اول دستہ ڈاکٹرس ، نرسیس ، میڈیکل گریجویٹس ہیں جو دن رات مریضوں کا علاج کرنے کی انتھک کوشش کررہے ہیں ان نازک حالات میں بھی بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں مستی سوجھی ہے اور جھوٹی باتیں پھیلا کر عوام کو گمراہ بھی کررہے ہیں ۔ ان جھوٹی خبروں اور وائرس کے بارے میں مذاق بنا لینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا انتباہ دینے والا نظم و نسق محض چوکسی کی بات کررہا ہے جو قابل ستائش بھی ہے اور قابل توجہ بھی ، کیوں کہ چند مخصوص علاقوں میں چوکسی سے مسئلہ کا حل نہیں نکلے گا ۔ نظم و نسق کے پاس اس قدر وسیع وسائل نہیں ہیں کہ وہ ہر ایک پر نظر رکھ سکے ۔ یہ تو عوام کو ہی چوکس رہنے کی ضرورت ہے لیکن لاک ڈاؤن کی مار سہنے والے عوام میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں لاک ڈاون کی پرواہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ خود کی صحت کی پرواہ کررہے ہیں ، بلکہ کھلے طور پر خلاف ورزیاں کرتے ہوئے وائرس کے پھیلاؤ کی دعوت دے رہے ہیں ۔ انہیں یہ احساس نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن نے ایک طرف عوام کی بڑی تعداد کو بے روزگار کردیا ہے تو دوسری طرف حکومت کے خزانے خالی کردئیے ہیں ۔ صرف تلنگانہ حکومت کو روزانہ 450 کروڑ روپئے کا نقصان ہورہا ہے ۔ ماہ اپریل کے صرف چار دن میں حکومت کو 2400 کروڑ روپئے کا ریونیو وصول ہونا تھا لیکن اسے صرف 4 کروڑ روپئے ملے ہیں ۔ تلنگانہ حکومت اس نازک صورتحال کے باوجود شہریوں کی زندگیوں کو وائرس سے بچانے کے لیے لاک ڈاؤن کو جاری رکھنے پر مصر ہے ۔ ملک بھر میں کورونا وائرس کے کیسوں میں 6000 تک کا اضافہ ہوا ہے ۔ 200 سے زیادہ لوگوں کو وائرس نے لقمہ بنالیا ہے ۔ یہ صورتحال نہ صرف ہندوستان کے لیے بحران پیدا کردی ہے بلکہ آج ساری دنیا سنگین بحران کا شکار ہے ۔ اس مہلک وائرس نے ساری دنیا کی بڑی طاقتوں کو بے بس کردیا ہے ۔ آج ہر ملک ایک ہی مسئلہ سے دوچار ہے ۔ ہندوستان ہو یا اس کی ریاستیں وائرس کی زد میں آنے سے اپنے مالی وسائل سے محروم ہورہی ہیں ۔ لیکن تلنگانہ ریاست کو دیگر ریاستوں پر فوقیت حاصل تھی کہ یہ ریاست اپنے وسائل کے ذریعہ عوام کو لاک ڈاؤن کی مار سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوگی لیکن چیف منسٹر نے ابتداء میں تیزی دکھائی اور جب مالیاتی مسئلہ درپیش ہوا تو بہبودی اقدامات سرد پڑ گئے ۔ 2018 ء میں دوبارہ اقتدار پر آنے کے بعد چیف منسٹر کے سی آر نے یقین دلایا تھا کہ تلنگانہ ریاست کو مالیاتی ، معاشرتی اور ترقیاتی شعبوں میں ملک کی منفرد و مثالی ریاست بنائیں گے لیکن اب اس وائرس نے ایسا معلوم ہوتا کہ ان کی بھی کمر توڑ دی ہے ۔ وہ لوگوں کو صرف دلاسہ دے رہے ہیں ۔

لاک ڈاؤن کی درد بھری کہانیوں میں وہ سیاہی گھول رہے ہیں ۔ اب آئندہ مزید 15 دنوں تک عوام پر پڑنے والی مشکلوں سے نظریں بھی چرا لیں گے تو غیرت کا مقام بھی رفو ہوتا جائے گا ۔ لاک ڈاؤن کی ہر صبح غریب لوگ تازہ آس لے کر گھروں سے نکلتے ہیں ۔ تھکن اس وقت ہوتی ہے مایوسی اس وقت چھا جاتی ہے جب راشن کی دکان پر دن بھر ٹھہرنے کے بعد بھی اناج نہیں ملتا ۔ ان کے حصہ کا اناج کوئی اور اڑا لے جاتا ہے بعد ازاں اس اناج میں سے ایک پیاکٹ بناکر غریب کو دیتے ہوئے سیلفی لے کر اپنی سخاوت کی تشہیر کرتا ہے ۔ یہ حقیقت ہے اس شہر کی اس بستی کی اس گاوں کی اس ملک کی اور اس لوگوں کی جنہیں راس نہ آئے لیڈروں کے وعدے ان کی باتیں ۔ جب لیڈر ہی بے بس ہوجائے تو عوام کو بے بسی سے نکلنے کی از خود کوشش کرنی ہوگی اور اس سمت میں پہلی کوشش خود کو گھروں میں بند رکھنا ہے ۔ کورنٹائن کرلیں ، وباء کے زور کو توڑ دیں ۔ اب بات کرتے ہیں تبلیغ والوں کی یہ لوگ آج اس قدر مقبول ہوگئے ہیں کہ ملک کا جانبدار میڈیا اپنی ساری دولت اور توانائی طاقت وقت اور زور تبلیغی جماعت کے لوگوں کو بدنام کرنے پر خرچ کردیا ہے ۔ تبلیغ والوں کے لیے یہ غور طلب امر ہے کہ ان کو راتوں رات مقبول بنانے والوں پر غصہ اور برہم ہونے کے بجائے انہیں اس موقع سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے اور اپنی تبلیغ کے 100 سال قدیم روایات میں تھوڑی سی تبدیلی لاکر اب غیر مسلموں تک خود کی رسائی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔ آپ لوگوں کے کام اور نام کو ملک کے ہر گھر تک پہونچنے والے میڈیا نے بہت اچھا کام کردیا ہے ۔ اب آپ لوگ بلکہ ہر ہندوستانی مسلمان آگے کی حکمت عملی اور تیاری شروع کردے تو اس کے لیے بہت کام آئیں گے ۔ میڈیا ہو یا فرقہ پرست حکومت یہ موجودہ دور کے مسلمانوں کے لیے ایک نعمت یا غنیمت سمجھیں کیوں کہ سدھرنے اور سدھارنے کا موقع مل رہا ہے ۔ اپنی جڑیں غیر مسلمانوں تک پھیلانے کی راہ ہموار ہوچکی ہے لہذا تبلیغی جماعت کے لوگوں بالخصوص تمام مسلمانوں کو اپنے اندر ایک مضبوط حکمت عملی تیار کرکے سامنے طاقتور دشمن سے مقابلہ کرنے کی تیاری کرنی ہوگی ۔ تبلیغ والوں کے اپنے کام میں وسعت لانے اپنی مالی ، جسمانی اور عددی طاقت کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنانے ذہن سازی کرنے اور چال پہ چال چلنے کا موقع مل چکا ہے ۔ اس سے استفادہ کرو گے تو آگے بڑھوگے ورنہ تمہاری داستان تک ۔