لنچنگ اردو کی

   

کے این واصف
’’لنچنگ‘‘ یہ انگریزی کا کوئی نیا لفظ نہیں ہے۔ مگر پچھلے چار ، پانچ سال میں یہ لفظ کچھ زیادہ ہی سنا اور پڑھا جارہا ہے ۔ جس کے معنی اجتماعی طور پر یا گروپ کی شکل میں کسی پر حملہ آور ہونا ہے جس کا مقصد جسمانی اذیت پہنچانا یا جان سے مار ڈالنا ہوتا ہے ۔ کسی زمانے میں سفید فام امریکی سیاہ فام افراد کی لنچنگ (Lynching) کیا کرتے تھے ۔ آج کل ہندوستان میں یہ غیر قانونی اور غیر انسانی عمل ’’بھگوا بریگیڈ‘’ نے ا پنے ہاتھ میں لے رکھا ہے ۔ یہ لوگ کسی پر بھی فرضی جرم عائد کردیتے ہیں اور فوری مبینہ مجرم کو سزا بھی دے دیتے ہیں۔ پچھلے چار پانچ سال کے عرصہ میں ملک میں پیش آرہے لنچنگ کے واقعات میں اب تک ہزاروں افراد زخمی اور بیسیوں اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ خیر فی الحال ہمیں ملک میں پھیلی یہ لاقانونیت اور افراتفری پر بحث کرنا ہمارا موضوع نہیں ہے بلکہ ہمارا موضوعِ بحث اردو زبان پر کی جارہی ’’لنچنگ‘‘ ہے جو خود اردو والے کر رہے ہیں ۔ ویسے اردو والوں کا یہ عمل برسوں سے جاری ہے ۔ کوئی دو ہفتہ قبل اردو والوں کی لنچنگ سے ایک موت ہوئی ، مقتول کی عمر 25 سال تھی جو 1994 ء میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں پیدا ہوا تھا ۔ اس نے بڑی تیزی سے مملکت اور خلیجی ممالک میں اپنی پہچان بنالی تھی ۔ مگر وہ 22 مارچ 2019 ء کو ختم ہوگیا ۔ اس کی موت اہل اردو کی لنچنگ سے ہوئی ۔ جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں سعودی عرب سے شائع ہونے والے پہلے اردو اخبار ’’ اردو نیوز‘‘ کی ۔ عرب دنیا سے شائع ہونے والا یہ پہلا اردو روزنامہ مملکت سمیت سارے خلیجی ممالک میں دستیاب کرایا جاتا تھا ۔ یہ اخبار ایک بڑے اشاعتی ادارے ’’سعودی ریسرچ اینڈ پبلیشنگ کمپنی‘‘ (SRPC) کے زیر اہتمام شائع ہوتا تھا جو سعودی عرب کا ایک نامور ادارہ ہے ۔ اس ادارے کے تحت کئی عربی روزنامے ، ہفتہ وار اور ماہنامہ شائع ہونے کے علاوہ انگریز ی اخبار ’’عرب نیوز‘‘ ’’اردو نیوز‘‘ اور ’’ملیالم نیوز‘‘ بھی شائع ہوتے تھے ۔ ملیالم نیوز اور اردو نیوز 1994 ء میں شائع ہونا شروع ہوئے تھے جبکہ انگریزی اخبار عرب نیوز کوئی 50 سال سے شائع ہورہا ہے اور اس کی اشاعت اب بھی جاری ہے ۔ اردو نیوز ایک بڑے ادارے کے زیر اہتمام شائع ہونے کے باوجود کبھی مالی اعتبار سے خود کفیل نہ ہوسکا ۔ پھر بھی SRPC نے اسے 25 سال جیسے طو یل عرصہ تک جاری رکھا ۔ اردو نیوز کے کارکنان نے ایک اچھا اور معیاری اخبار نکالنے کے علاوہ ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح اس اخبار کی تعداد اشاعت بڑھے اور کسی طرح اخبار کے لئے اشتہارات حاصل کئے جائیں لیکن داد دیجئے اردو کمیونٹی کو جو 25 سال میں ٹس سے مس نہ ہوئی اور انجان بنی رہی ۔ کبھی یہ نہیں سوچا کہ اپنی زبان کے اخبار کو بچانے ، زندہ رکھنے میں اپنا انفرادی فرض ادا کرتے ہو ئے صرف روزانہ ایک اخبار ہی خرید لیا جائے ۔ سعودی عرب میں ہند و پاک کے اردو جاننے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے لیکن اردو نیوز کی تعداد اشاعت چند ہزار سے آگے نہیں بڑھی۔ یعنی اردو والوں کی جملہ آبادی میں چند ایک ہزار اخبار خرید کر پڑھتے تھے ، کچھ یہاں وہاں سے مانگ کر پڑھ لیتے تھے یا پھر چائے خانوں یا ریسٹورنٹس وغیرہ میں اخبار دیکھ لیا کرتے تھے اور بخدا ہمارے کچھ جاننے والے ایسے بھی ہیں جنہیں آج تک پتہ نہیں کہ سعودی عرب سے ایک اردو اخبار شائع ہوتا تھا ۔ جو بھی ہو 25 سال اپنی بقاء کی جنگ لڑتے لڑتے ایک دن ختم ہوگیا۔ جس طرح لنچنگ کے نتیجہ میں ہوئے قتل کیس میں مقتول کی نشاندہی مشکل ہوتی ہے ، یہی حال اخبار ’’اردو نیوز‘‘ کے ختم ہونے کے معاملے میں بھی ہے کیونکہ کسی کو پتہ نہیں کہ یہ اخبار کیوں بند ہوا ۔ اس میں کس کا تجاہل رہا ، کس کی بے توجہی اور کس کی لاپرواہی کے نتیجہ میں یہ اخبار بند ہوا ۔ بس حقیقت یہ ہے کہ 25 سال بعد ایک اخبار بند ہوگیا ۔ یہاں ہمیں ڈاکٹر انور معظم کی نظم ’’قتل ہوا ہے‘‘ یاد آرہی ہے ۔ اس کو معروف ڈرامہ نگار بھاسکر شوالکر نے ایک Play کی شکل دیکر اسٹیج پر بھی پیش کیا تھا ۔ اسٹیج پر یہ ڈرامہ کچھ یوں شروع ہوتا ہے کہ ایک بڑے کینوس پر کٹے پھٹے انسانی عضاء بکھرے پڑ ے ہیں جو ایک علامتی لاش ہے ۔ پانچ یا چھ افراد کا ایک گروپ اس پینٹنگ کے اطراف قتل ہوا ہے ، کا ورد کرتے ہوئے گھوم رہا ہوتا ہے ۔ دو چار چکر کاٹنے کے بعد گروپ اچانک رک جاتا ہے اور ان میں سے ایک جو حکم یا منصف ہے ، گروپ کے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے کہتا ہے یہ قتل تم نے کیا ہے ۔ وہ شخص جواب دیتا ہے کہ میں نے تو اس کا ہاتھ توڑا تھا ۔ میں نے اس کی جان نہیں لی ۔ لہذا میں قاتل نہیں ہوسکتا۔ یہ گروپ دوبارہ سے قتل ہوا ہے ۔ قتل ہوا ہے کا جملہ دہراتے پھر پینٹنگ کا چکر لگاتا ہے اور کچھ لمحے بعد منصف رک کر دوسرے شخص سے وہی سوال کرتا ہے کہ کیا یہ قتل تم نے کیا ہے ۔ اس شخص کا جواب بھی وہی ہوتا ہے ، میں نے تو صرف اس کی ٹانگ توڑی تھی ۔ میں نے اس کی جان نہیں لی ۔ لہذا میں قاتل نہیں ہوں۔ منصف پانچوں افراد سے یہی سوال کرتا ہے اور سب کا جواب وہی ہوتا ہے ۔ آخر میں منصف یہ کہتا ہے کہ قاتل میں ہوں کیونکہ میں کسی کو قاتل ثابت نہیں کرپایا ۔

اس ڈرامہ میں کم از کم کوئی تو الزام اپنے سر لیتا ہے ۔ مگر ہم اہل اردو اپنی زبان کو اپنے تجاہل عارفانہ سے مسلسل ضرب تو لگا رہے ہیں مگر کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اردو کو گمنامی کے اندھیروں کی طرف ڈھکیلنے میں کس کا ہاتھ ہے۔ دوسرے طرف اردو والے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اردو دشمن طاقتوں نے اس زبان کا یہ حشر کیا ہے ، حکومت کی عدم سرپرستی نے اردو کو کم کمزور کیا ہے ، اردو تعصب کا شکار ہوئی ہے ۔ مگر کوئی اردو والا اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرتا کہ ہم نے اپنی انفرادی حیثیت میں اپنی زبان کیلئے کیا گیا ۔

یہاں ’’اردو نیوز‘‘ اخبار پر گفتگو ہم نے محض اس لئے کی کہ اس روزنامہ کو بند ہوئے ہفتہ ، دس دن ہی ہوئے ہیں۔ یہ ایک تازہ سانحہ ہے ۔ ورنہ ہم نے پچھلے چند برسوں میں کئی روزنامہ ، ہفتہ وار اور ماہناموں پر مٹی ڈالی ہے۔ جن میں سے چند ایک نام جو فی الحال ذہن میں ہیں، کا ذکر کروں گا جیسے اردو ملاپ ، اردو بلڈس، اردو میگزین (جدہ) شمع ، بیسویں صدی ، بانو ، کھلونا ، شب خون وغیرہ وغیرہ شامل ہیں اور اس فہرست میں بہت آگے گئے اور کچھ تیار بیٹھے ہیں کہ مصداق آنے والے برسوں میں ہم یا ہماری آنے والی نسل رہے سہے اردو کے اخبار ، رسالوں پر خاک ڈالے گی اور عربی زبان کے بعد اردو میں جو ہمارا دینی سرمایہ کتب خانوں اور شخصی لائبریریوں میں موجود ہے ، وہ دیمک کی غذا بن جائے گا۔
اب آیئے ہم اردو اخبارات و رسائل کو جاری یا زندہ رکھے جانے کے بارے میں کچھ تدابیر پر غور کریں۔ بے شک جرائد و رسائل صرف اس کی تعداد اشاعت میں اضافہ ہونے یا بڑھ جانے سے زندہ نہیں رہ سکتے بلکہ وہ اشتہارات کے بل بوتے پر ہی کھڑے رہ سکتے ہیں اور اشتہارات اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب وہ مقبول ہوں اور مقبولیت اسی وقت ہوگی جب ان کی اشاعت کی تعداد بڑھے گی کیونکہ اشتہار دینے والے یہی دیکھتے ہیں کہ ان کا پیام کتنے افراد تک پہنچے گا ۔ لہذا جتنی سرکولیشن بڑھے گی اتنے زیادہ اشتہار ملیں گے اور اشتہار ملیں گے تو ادارے کی آمدنی بڑھے گی اور آمدنی بڑھے گی تو ادارے کے ٹکے رہنے کی ضمانت ہوگی ۔ یہاں ہم ایک اور بات واضح کرنا چاہیں گے کہ اردو کے اخبار یا رسائل خریدنا صرف ان کی ذمہ داری نہیں جو اردو پڑھنا جانتے ہیں بلکہ ہر اس صاحب حیثیت شخص کو اردو اخبار یا رسالے خریدنے چاہئے جس کی مادری زبان اردو ہے۔ جو اظہار خیال اردو میں کرتا ہے ۔ اردو اخبار ، رسائل یا کتابیں ہمیں یہ سمجھ کر خریدنا چاہئے کہ ہماری کمائی پر ہماری زبان کا بھی حق ہے ۔ آپ تصور کر کے دیکھیں کہ ہر اردو بولنے والا اپنی کمائی کا ایک معمولی سا حصہ اپنی زبان پر زبان کا ٹیکس ہی سمجھ کر خرچ کرے تو ہندوستان میں ایک انقلاب بپا ہوجائے گا ۔ ا ردو روزگار کی زبان بن جائے گی ۔ نئی نسل اردو پڑھنے کی طرف راغب ہوگی ۔ اس کا سماجی اور سیاسی سطح پر بھی فائدہ ہوگا ۔ آج جو اخبار سینکڑوں یا ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں ، اگر ان کی تعداد اشاعت لاکھوں میں پہنچ جائے گی تو ہماری زبان کی اہمیت اور وقعت بڑھ جائے گی ۔ آج اردو اخبار میں کوئی خبر یا ہمارا مطالبہ شائع ہوتا ہے تو وہ گنبد کی آواز کی طرح اردو حلقوں میں بلند ہوکر رہ جاتی ہے ۔ اگر ہماری آواز لاکھوں صفحات پر شائع ہوگی تو اس کی طاقت بڑھے گی اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے گی ، ہماری آواز ہما رے مسائل صاحبانِ اقتدار کے کانوں تک گونجیں گی۔

بہرحال اب بھی تاخیر نہیں ہوئی ہے ۔ ہر اردو والا اپنی انفرادی ذمہ داری نبھائے ، اردو اخبار ، رسائل اور کتابیں خریدنا اپنی عادت بنالے ، اپنے بچوں کو اردو سکھایئے ، نئی نسل میں اپنی زبان اور اس سے جڑی تہذیب کو منتقل کریں تو اردو کو اپنا کھویا ہوا وقار واپس حاصل ہوگا ۔ ورنہ اردو زبان صرف بول چال کی زبان بن کر رہ جائے گی۔
knwasif@yahoo.com