مانا کہ ہاتھ میں ہے تیرے ابھی حکومت

   

رشید الدین

بابری مسجد اراضی سنگھ پریوار کا اگلا نشانہ
محروس کشمیریوں سے مودی کی زبانی ہمدردی

70 سال قدیم ایودھیا تنازعہ کے حل کے سلسلے میں نومبر میں فیصلہ کن موڑ آسکتا ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے نہ صرف سماعت کی آخری تاریخ مقرر کی، بلکہ نومبر کے وسط میں فیصلہ کا اشارہ دیا ہے۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میں پانچ رکنی بینچ 6 اگست سے روزانہ سماعت کررہی ہے۔ عدالت نے 18 اکتوبر تک سماعت کی تکمیل اور چار ہفتوں بعد فیصلہ کا اعلان کیا۔ چیف جسٹس 17 نومبر کو وظیفہ پر سبکدوش ہورہے ہیں اور وہ سبکدوشی سے قبل فیصلہ سنانا چاہتے ہیں۔ ملک میں عدلیہ کی آزادی اور اس کی غیرجانبداری شبہات سے بالاتر ہیں لیکن عدالت کے باہر بی جے پی اور سنگھ پریوار کے قائدین جس قسم کے بیانات دے رہے ہیں، وہ تشویش کا باعث ہیں اور فیصلے کے بارے میں عام ذہنوں میں شبہات پیدا کرتے ہیں۔ اترپردیش کے ایک وزیر نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ ہمارا ہے لہذا فیصلہ بھی رام مندر کے حق میں آئے گا‘‘۔ بی جے پی قائد سبرامنیم سوامی جو خود بھی قانون داں ہیں، یہاں تک کہہ دیا کہ فیصلہ مندر کے حق میں آئے گا اور نومبر سے تعمیر بھی شروع ہوجائے گی۔ آخر اس طرح کے بیانات کا مقصد کیا ہے۔ کیا واقعی بی جے پی حلقوں کو پتہ ہے کہ فیصلہ کیا آنے والا ہے۔ جب عدالت میں زیرسماعت معاملے پر تبصرہ کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے، تو سپریم کورٹ کس طرح خلاف ورزی پر خاموش ہے۔ اگر کسی مسلم فریق کی جانب سے اس طرح کا بیان دیا جاتا تو آسمان سر پر اُٹھا لیا جاتا۔ آخر بی جے پی اور سنگھ پریوار کو کس نے یہ آزادی دی ہے کہ وہ عدلیہ کی غیرجانبداری کو مشکوک کرنے پر تلے ہیں۔ بی جے پی قائدین تو چھوڑیئے خود وزیراعظم نریندر مودی نے بھی یہ مسئلہ چھیڑ دیا۔ مہاراشٹرا اسمبلی چناؤ کی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے بظاہر عدلیہ کی کارروائی پر بیانات دینے والوں کو نشانہ بنانے کی آڑ میں انہوں نے رام مندر مسئلہ کو گرما دیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ رام مندر پر بیان بازی بند کی جائے اور سپریم کورٹ پر بھروسہ رکھیں۔ جب مودی دوسروں کو بیان بازی بند کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں تو پھر انتخابی ریالی میں انہوں نے یہ مسئلہ کیوں چھیڑ دیا۔ اگر واقعی نریندر مودی بیان بازی کرنے والوں سے ناراض تھے تو ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے دوسروں کو بیان بازی سے روکنا چاہئے تھا۔ ظاہر ہے کہ جب معاملہ عدالت میں ہے تو اسے موضوع بحث بنانے کی اجازت وزیراعظم کو بھی نہیں دی جاسکتی۔ مودی نے سپریم کورٹ، دستورِ ہند اور نظام عدلیہ پر بھروسہ کرنے کی بات کہی۔ آخر عدلیہ پر کس بات کا بھروسہ؟ یہی نہ کہ فیصلہ مندر کے حق میں آئے گا۔

وزیراعظم کا یہ مقصد نہیں تھا تو پھر انتخابی ریالی میں اس مسئلہ کو چھیڑنے کا مطلب کیا ہے۔ مودی نے جس چالاکی کے ساتھ رام مندر کو انتخابی موضوع بنایا، مبصرین اس میں ’’میچ فکسنگ‘‘ کی بو محسوس کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کی طرز پر ثبوت اور تاریخی شواہد کی بنیاد پر نہیں بلکہ آستھا (عقیدہ) کی بنیاد پر آئے گا۔ سپریم کورٹ نے ثالثی کا عمل جاری رکھنے کی اجازت دی ہے جبکہ چند دن قبل ہی سہ رکنی ثالثی کمیٹی نے سپریم کورٹ کو رپورٹ پیش کرتے ہوئے ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔ ایک مرتبہ ناکام ثالثی کس طرح پھر کامیاب ہوسکتی ہے؟ ثالثی اور مقدمہ کی سماعت دونوں یکساں طور پر کیسے چل سکتے ہیں۔ کیا ثالثی کامیاب ہوجائے تو سپریم کورٹ اپنا فیصلہ مؤخر کردے گا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ عدالت کے امکانی فیصلے کی تائید میں ثالثی کا نتیجہ ظاہر کرتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرلی جائے۔ بی جے پی لوک سبھا میں دوتہائی اکثریت کی بنیاد پر انتخابی منشور کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ کشمیر کے خصوصی موقف کے خاتمے کا عمل پورا ہوگیا، یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے سلسلے میں طلاق ثلاثہ پر پابندی کے ذریعہ شریعت میں مداخلت کی گئی، جو یکساں سیول کوڈ کی سمت پیش قدمی ہے۔ اب رہا رام مندر کی تعمیر کا وعدہ تو اس کے لئے عدالت سے اراضی حاصل کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔ اس طرح تینوں اہم وعدوں کی تکمیل ہوجائے گی جو بی جے پی کے قیام سے انتخابی منشور کا حصہ ہیں۔ اگر سپریم کورٹ انصاف اور شواہد کی بنیاد پر مسلم فریق کے حق میں فیصلہ سنائے تو سیاسی مبصرین کے خیال میں حکومت فیصلے کو قبول نہیں کرے گی اور پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر مندر کے حق میں قانون سازی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے اثر بنا دے گی۔ ویسے بھی سنگھ پریوار طویل عرصہ سے رام مندر کے حق میں قانون سازی کا مطالبہ کررہا ہے۔ مودی حکومت کے لئے قانون سازی کا آپشن ہمیشہ کھلا ہے۔ حکومت اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ اسے پرواہ نہیں کہ ملک کی یکتا ، یکجہتی اور رواداری کا کیا ہوگا۔ ایودھیا میں اراضی کی ملکیت کا مقدمہ ملک کی تمام سکیولر، ترقی پسند اور انصاف پسند طاقتوں کیلئے چیلنج ثابت ہوگا۔ عدلیہ کے ذریعہ بی جے پی حکومت ایک اور وار کرنے کی تیاری کررہی ہے جو ہندو راشٹر کے قیام کی سمت اہم قدم ہوگا۔ طلاق ثلاثہ قانون کے ذریعہ مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کا موقف ختم کرتے ہوئے دفعہ 370 کو کالعدم کردیا گیا۔ جس کے تحت کشمیریوں کو خصوصی مراعات حاصل تھیں، اتنا ہی نہیں ملک بھر میں این آر سی پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک بنانے کی سازشیں غیرقانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق نئے قانون کا نشانہ زیادہ تر مسلمان ہی ہوں گے۔ سابقہ تجربات کی روشنی میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسلمانوں کے ایک فرقہ نے بابری مسجد کی اراضی حوالے کرنے کا پیشکش کرتے ہوئے مندر کی تعمیر کا گراؤنڈ تیار کردیا ہے حالانکہ مقدمہ کے دیگر فریقین کا اس معاملے میں موقف علیحدہ ہے اور وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے تیار ہیں۔ بی جے پی نے کچھ ایسے عناصر کو اپنی تائید میں میدان میں اُتار دیا ہے جن کا بابری مسجد اراضی سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں۔ جس طرح طلاق ثلاثہ اور پھر دفعہ 370 کی برخاستگی پر ملک بھر میں سناٹا دیکھا گیا، کوئی عجب نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہے۔ اگر بے حسی اسی طرح عروج پر رہی تو بی جے پی کو مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ عام مسلمان مذکورہ مسائل پر بے چین ہے لیکن قیادتیں خواہ وہ مذہبی ہو کہ سیاسی حکومت کے خلاف لب کشائی سے خوف زدہ ہیں۔ بعض مصلحتوں کا شکار ہوکر خاموشی اختیار کرچکے ہیں تو بعض دیگر اسی کو غنیمت جان کر حکومت کی راہداریوں میں اپنا مقام بنانے مسابقتی دوڑ میں ہیں۔

دوسری طرف کشمیر میں عوام کی قید کے تقریباً 7 ہفتے مکمل ہوچکے ہیں اور اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کو عوام کی تکالیف کا کوئی اندازہ شاید اس لئے بھی نہیں ہے کہ وہ سنگھ پریوار کے ایجنڈہ پر عمل آوری کے پابند ہیں۔ دنیا بھر میں کشمیر سے متعلق فیصلہ کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے مودی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مہاراشٹرا میں انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ کشمیر کی خون آلود دھرتی کو جنت بنانا ہے اور ہر کسی کو اس کام میں شامل ہونا چاہئے۔ انہوں نے ہر کشمیری کو گلے لگانے کی بات کہی۔ شاید وہ بھول چکے ہیں کہ حکومت کے اقدام نے جنت نشاں کشمیر کو دوزخ بنادیا ہے اور عوام عذاب بھگت رہے ہیں جبکہ حکمراں طبقہ اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے۔ مودی نے کشمیریت، جمہوریت اور انسانیت کے متعلق اٹل بہاری واجپائی کے نعرے کی سابق میں تائید کی تھی۔ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ کشمیریوں کو گولی سے نہیں میٹھی بولی سے دل جیتنے کی کوشش کی جائے گی۔ پتہ نہیں کیوں انہوں نے وہ تمام باتوں کو بھلا دیا اور وادی کو سکیورٹی فورسیس کے حوالے کردیا گیا۔ کانگریس پر دہشت گرد سرگرمیوں اور ملک کی سلامتی پر سمجھوتہ کا الزام عائد کرنے والے نریندر مودی عوام کو بتائیں کہ دہشت گرد مسعود اظہر کو کس حکومت نے محفوظ طریقے سے افغانستان پہنچایا تھا۔دفعہ 370 کی برخاستگی کے سلسلے میں کشمیریوں سے کوئی رائے تک حاصل نہیں کی گئی۔ کیا یہی انسانیت اور جمہوریت ہے؟ کیا یہی کشمیریت ہے کہ کشمیریوں کے جذبات کو کچل کر انہیں مقید کردیا جائے اور وہ بنیادی سہولتوں کو ترستے رہیں۔ حکومت بھلے ہی معمول کے حالات کا دعویٰ کردے لیکن انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں نے حقائق پیش کرتے ہوئے مودی حکومت کا پول کھول دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ بھی مرکزی حکومت کی زبان میں بات کررہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارک کیا کہ کشمیر سے متعلق حکومت کا فیصلہ قومی مفاد میں ہے۔ کیا پنڈت جواہر لال نہرو سے اٹل بہاری واجپائی تک کسی کو قومی مفاد کا خیال نہیں تھا؟ کیا وہ 370 کی برخاستگی یا پھر برقراری کے فوائد یا نقصانات سے لاعلم تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کی 70 سالہ تاریخ میں صرف نریندر مودی واحد وزیراعظم ہیں جنہیں قومی مفاد کا خیال ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
مانا کہ ہاتھ میں ہے تیرے ابھی حکومت
لیکن رہے گا تجھ کو یہ اختیار کب تک