مجلس کو ساتھ لیکر چلنا ہماری مجبوری : کے ٹی آر

,

   

مسلم ووٹ کی تقسیم کو روکنا ہمارا مقصد۔ دیشا انکاؤنٹر غلطی

حیدرآباد۔/30 مارچ، ( سیاست نیوز) بی آر ایس کے ورکنگ پریسیڈنٹ و ریاستی وزیر کے ٹی آر نے مشہور ہندی اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے اپنے 17 سالہ سیاسی سفر پر مختصر سی روشنی ڈالی۔ مختلف موضوعات مثلاً دیشا انکاؤنٹر، خواتین کو 33 فیصد تحفظات اور مجلس سے دوستی کے علاوہ دیگر امور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کے ٹی آر نے کہا کہ تلنگانہ تحریک کے دوران ہمارے قائد کے سی آر نے اپنی لوک سبھا رکنیت سے استعفی دے دیا تب میں امریکہ میں تھا اور کسی کو کچھ بتائے بغیر حیدرآباد پہنچ گیا۔ ضمنی انتخاب میں اپنے والد کی کامیابی کیلئے تھوڑا سا تعاون کیا ۔ کنال کامرا نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے مقرر کردہ کمیشن نے دیشا انکاؤنٹر کو فرضی قرار دیا ہے جمہوریت میںیہ کتنا معقول ہے، اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس کی سخت مذمت کی ہے۔ کے ٹی آر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے اگر اس کو غلط قرار دیا ہے تو وہ غلط ہی ہوگا، کبھی کبھی ایسا ہوجاتا ہے جس کو ہم پسند نہیں کرتے۔ کے ٹی آر نے استفسار کیا کہ انسانی حقوق کے رہنما انسانی درندوں کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتے جو انتہائی وحشیانہ طریقوں سے نابالغوں کی عصمت ریزی کرتے ہیں۔ صرف سال 2019 کے ایک واقعہ کی بات کررہے ہیں لیکن گذشتہ 9 برسوں میں ہم نے بہت سے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا بھی دی ہے۔ اب سارا سسٹم مرکز کے کنٹرول میں چلا گیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اب انہیں عدلیہ پر بھی اعتماد نہیں ہے۔ اب بھی چند جج ایمانداری سے کام کررہے ہیں اور ایسے لوگوں کی وجہ سے عدلیہ پر اب بھی کچھ بھروسہ باقی ہے۔ کے ٹی آر نے ایوانوں میں خواتین کی کمی کا بھی اعتراف کیا ہے اور کہا کہ 17 وزراء پر مشتمل کابینہ میں صرف دو خواتین اور 119 ارکان اسمبلی میں صرف 6 خواتین ہیں تاہم ہم نے ضلع پریشد، میونسپلٹیز اور پنچایتوں میں خواتین کو 50 فیصد تحفظات فراہم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ اسمبلی میں بھی خواتین کو 33 فیصد تحفظات چاہتے ہیں ، ضرورت پڑنے پر وہ اپنی اسمبلی نشست کسی خاتون کو چھوڑنے کیلئے تیار ہیں۔ مستقبل میں ہم 119 ارکان اسمبلی میں 90 فیصد سے زیادہ خواتین کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ مجلس سے بی آر ایس کی دوستی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کے ٹی آر نے کہا کہ ہر پارٹی کے اپنے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ بی آر ایس اور مجلس کے اپنے اپنے الگ نظریات اور خیالات ہیں۔ مجلس کو ساتھ لے کر چلنا ہماری مجبوری ہے۔ مجلس کی وجہ سے مسلم ووٹ تقسیم ہوتے ہیں اور اس کا دوسروں کو فائدہ ہونے کے الزامات ہیں مگر وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ن