مساجد کی شہادت کے خلاف احتجاج کو روکنے مسلم قیادت سے خفیہ مذاکرات ؟

,

   

بعض عہدیداروں کی خدمات،فورم اور مجلس عمل کا کوئی اجلاس نہیں، استعفے کے دباؤ سے بچنے کی کوشش،فورم کی بعض جماعتیں ناراض

حیدرآباد۔ سکریٹریٹ کی دو مساجد کی شہادت کے خلاف مسلمانوں میں پائی جانے والی ناراضگی اور برہمی سے نمٹنے کیلئے حکومت نے خفیہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہوئے سیاسی اور مذہبی قائدین کو احتجاج سے روکنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ حکومت کی تائید کرنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتیں بظاہر یہ دعویٰ کررہی ہیں کہ چیف منسٹر ان سے ملاقات کیلئے تیار نہیں لہذا مساجد کی بحالی کا مطالبہ راست طور پر چیف منسٹر سے رجوع کرنے میں دشواری ہورہی ہے جبکہ حکومت کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی اور مذہبی قیادت سے قربت رکھنے والے عہدیداروں کے ذریعہ مذاکرات کئے گئے اور مذہبی، سیاسی جماعتوں کو احتجاج سے باز رہنے راضی کرلیا گیا۔ ذرائع کے مطابق حکومت اور تائیدی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطہ کار کے طور پر بعض ایسے افراد کی خدمات حاصل کی گئیں جو یا تو برسر عہدہ ہیں یا پھر ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ اہم عہدوں پر مامور کئے گئے۔ ان افراد کے مقامی سیاسی جماعت کی قیادت سے قریبی روابط ہیں لہذا ان کے ذریعہ حکومت نے قیادت کے دعویداروں کو کسی عملی اقدام سے روک دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مساجد کی شہادت کو ایک ماہ گذرنے کے باوجود آج تک صرف زبانی بیانات کے علاوہ کوئی احتجاجی اقدام نہیں کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر بیان میں سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مساجد کی بازیابی میں حکومت کی تائیدی یہ جماعتیں سنجیدہ ہیں لیکن سرکاری ذرائع کی اطلاعات کے مطابق باقاعدہ ملاقات کے بغیر چیف منسٹر نے اپنے معاونین کے ذریعہ بات چیت کی اور مقامی سیاسی جماعت کو اس بات کی ذمہ داری دی کہ وہ مذہبی جماعتوں پر مشتمل فورم کو کسی احتجاجی لائحہ عمل سے باز رکھے۔

اگر مقامی جماعت اور فورم کے علاوہ حکومت کی تائید کرنے والی بعض دیگر مذہبی جماعتیں اگر واقعی مساجد کی بازیابی میں سنجیدہ ہوتیں تو ایک ماہ کے دوران کم از کم ان کا اجلاس تو منعقد ہوتا۔ ایک ماہ کے دوران مساجد کی شہادت جیسے حساس مسئلہ پر نہ ہی یونائٹیڈ مسلم فورم اور نہ ہی مجلس عمل کا اجلاس منعقد ہوا۔ یہ دو تنظیمیں بظاہر نام سے الگ ہیں لیکن ان میں وہی چہرے ہیں اور یہ تمام مقامی جماعت کے زیر اثر کام کرتے ہیں۔ مساجد کی بازیابی کیلئے ایک ماہ کے دوران سوائے بیان بازی کے کچھ نہیں کیا گیا اور فورم میں شامل بعض جماعتوں کی جانب سے اجلاس کا مطالبہ کیا گیا تو انہیں کسی طرح ٹالا جارہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ فورم میں شامل بعض اداروں اور شخصیتوں نے مساجد کی بازیابی کیلئے سرکاری عہدوں سے استعفی کی تجویز پیش کی لیکن عہدوں پر فائز افراد اس تجویز کے خلاف ہیں لہذا کسی دباؤ سے بچنے کیلئے اجلاس طلب کرنے سے گریزاں ہیں۔ فورم کے صدر خود سرکاری ادارہ اردو اکیڈیمی کے صدرنشین ہیں اور بعض دیگر تنظیموں اور جماعتوں کے نمائندے حج کمیٹی، وقف بورڈ، پبلک سرویس کمیشن اور دیگر اداروں میں برقرار ہیں۔ مقامی جماعت نے بھی اپنے نمائندوں کو کئی سرکاری عہدے دلائے ہیں اور تائید کے عوض میں اسے کونسل کی دو نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ مسلمانوں کا یہ احساس ہے کہ اگر تائیدی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اجتماعی طور پر عہدوں سے مستعفی ہوتے ہیں تو حکومت پر ضرور دباؤ پڑے گا۔ ایک ماہ گذرنے کے باوجود بھی مساجد کی بازیابی سے مذہبی اور سیاسی قیادت کی عدم دلچسپی کے نتیجہ میں عوام کا جماعتوں اور تنظیموں پر سے اعتماد اُٹھ سکتا ہے۔ دوسری طرف فورم کے ذرائع کے مطابق موجودہ پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے بعض جماعتیں علحدگی اختیار کرنے پر غور کررہی ہیں جس سے فورم پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔