مسلم فریقین کے اعتراض پر دستوری بنچ میں تبدیلی کا فیصلہ

   

راجیو دھون نے جسٹس للت کی شمولیت پر اعتراض کیا، ایودھیا تنازعہ کی سماعت 29 جنوری تک ملتوی
حیدرآباد ۔ 10 ۔ جنوری (سیاست نیوز) ایودھیا تنازعہ کی سماعت کو مسلم فریقین کے اعتراض پر 29 جنوری تک ملتوی کردیا گیا۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت میں پانچ رکنی دستوری بنچ پر آج سماعت کا آغاز ہوا ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمیعت العلماء ہند کے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون نے دستوری بنچ کی تشکیل پر سوال کھڑا کیا۔ ان کی دلیل تھی کہ عدالت عظمیٰ کی دیرینہ روایت ہے کہ بنچ میں کوئی ایسا جج نہیں ہوسکتا جو کسی بھی معاملہ میں اس کیس میں کسی اور فریق کی طرف سے بطور وکیل پیش ہوئے ہوں۔ جسٹس یو یو للت 1997 ء میں ایودھیا سے متعلق ایک مقدمہ میں کلیان سنگھ کی طرف سے وکیل تھے۔ لہذا وہ دستوری بنچ کا حصہ کیسے ہوسکتے ہیں۔ جسٹس یو للت نے اس اعتراض کو قبول کرتے ہوئے خود کو اس مقدمہ سے علحدہ کرلیا اور چیف جسٹس نے یہ اعتراف کیا کہ بنچ کی تشکیل میں چوک ہوئی ہے۔ انہوں نے بنچ کی دوبارہ تشکیل کے بعد 29 جنوری کو سماعت سے متعلق تفصیلات طئے کرنے کا فیصلہ کیا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی بابری مسجد کمیٹی کے معاون کنوینر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے بتایا کہ چیف جسٹس نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ چونکہ اس کیس میں 19,000 صفحات کی دستاویزات پر پارٹیوں نے انحصار کیا ہے اور اس کا ترجمہ کرایا گیا ہے ۔ انہوں نے سپریم کورٹ رجسٹری کو ہدایت دی کہ وہ ترجمہ کے درست ہونے کا جائزہ لے۔ قاسم رسول الیاس نے کہا کہ 29 جنوری کو نیا دستوری بنچ یہ طئے کرے گا کہ مقدمہ کی سماعت کس طرح کی جائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ مقدمہ کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ممکن نہیں ہے تاہم سماعت کے طریقہ کار کا فیصلہ 29 جنوری کو ہوجائے گا ۔ چیف جسٹس دستوری بنچ میں جسٹس للت کی جگہ کسی اور جج کو شامل کریں گے۔ اسی دوران سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا ولی رحمانی نے عدالت کے فیصلہ پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے بنچ سے متعلق اپنی سہو کو تسلیم کرتے ہوئے درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو مناسب اور خوش آئند بات ہے ۔ ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ہندو فریق خواہ میڈیا کے ذریعہ یہ اشتعال پھیلا رہے ہیں کہ مسلم فریق کسی نہ کسی تکنیکی بنیاد پر مقدمہ کو طول دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ دراصل یہ افراد عدالت پر الزام تراشی کر رہے ہیں حالانکہ ہم نے صرف ایک سہو کی طرف اشارہ کیا جسے عدالت نے تسلیم کرلیا۔ سماعت کے موقع پر مسلم فریقوں کی جانب سے تمام وکلاء عدالت میں موجود تھے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت العلماء کے وکیل ڈاکٹر راجو دھون اپنی علالت کے باوجود سماعت کے موقع پر موجود رہے۔ بورڈ کے دیگر وکلاء بھی سپریم کورٹ میں موجود تھے۔