!مسلم ممالک میں معاشی بحران

   

وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
!مسلم ممالک میں معاشی بحران
مسلم ممالک دن بہ دن ابتری اور تباہ کن حالات کا شکار بنادیئے جارہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ یا اس کے اطراف و اکناف میں ایک طرف مسلم دنیا کا عرصہ حیات تنگ کرنے کیلئے عالمی سطح پر اگر نت نئی سازشیں ہورہی ہیں تو دوسری طرف مسلم ملکوں کے داخلی مسائل اور حکومتوں کی نااہلی سے پیدا ہونے والی صورتحال نے عوام کو سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور کردیا ہے۔ عراق اور مصر کے بعد اب لبنان میں عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ حکومت کی بیجا پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ معاشی سطح پر ملک تباہی کے دہانے پر ہے۔ حالیہ مہینوں میں عراق اور مصر کے عوام نے حکومتوں کی مبینہ غلط حکمرانی اور ناقص کارکردگی پر شدید احتجاج کیا تھا اس کے بعد لبنان میں بھی عوام معاشی بحران سے پریشان ہوگئے ہیں۔ 2015ء سے یہاں عوام کے اندر اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے۔ افراط زر میں اضافہ، مہنگائی اور معاشی پیداوار میں گراوٹ، قرض کے بڑھتے بوجھ کی وجہ سے لبنان کی انفراسٹرکچر ترقی ٹھپ ہوگئی ہے۔ کئی دنوں تک برقی سربراہی مسدود ہونے سے عوام کی روزمرہ زندگی مفلوج ہوتی جارہی ہے۔ لبنان کی ایک تہائی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔ مسلم ملکوں میں یہ حالات کیوں پیدا ہورہے ہیں یہ غور طلب بات ہے۔ عراق میں کمر توڑ ٹیکسوں، مہنگائی اور بیروزگاری سے نالاں عوام کی طرف سے ملک گیر پرتشدد احتجاج کو چند دن ہی گذرے ہیں۔ آخر مسلم ممالک کے حکمرانوں نے ملک کی معاشی حالت کو اس قدر ابتر ہونے کیوں دیا کہ عوام حکومتوں کی ناقص اقتصادی پالیسیوں کے خلاف پرتشدد مظاہرے کرنے کیلئے مجبور ہوجائیں۔ لبنان میں جمعرات اور جمعہ کے روز دارالحکومت بیروت اور دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہرے ٹیکسوں میں اضافہ اور معاشی حالات کی دن بہ دن ابتری کے خلاف پرتشدد احتجاج میں تبدیل ہوگئے۔ لبنان کے صدر مقام بیروت کے مرکز میں بڑی تعداد میں لوگ حکومت گرانے کے نعرے کے ساتھ سڑکوں پر آ گئے۔ حکومت نے ان مظاہروں اور عوامی احتجاج کو مسترد کردیا۔ یہ سب مظاہرے نہیں فسادات ہیں جن کے پیچھے بیرونی ہاتھ ملوث ہیں۔ اگر حکومت کو یہ اندیشہ ہیکہ یہ تشدد بیرونی ہاتھوں کی کارستانی ہے تو اس کی جانچ و تحقیق ہونی چاہئے۔ لبنان کی حکومت نے اپنے شہریوں پر واٹس اپ کال پر بھی ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا تو عوام برہم ہوگئے کیونکہ واٹس اپ کال ساری دنیا میں مفت کیا جاتا ہے۔ واٹس اپ کے ذریعہ کال پر ٹیکس عائد کرنے کا اعلان عوام کو مشتعل کرنے کا باعث بنا ہے اسی لئے لوگ گھروں سے نکل کر چلوآؤ گھیراؤ کرو اور توڑپھوڑ شروع کرو کے نعروں کے ساتھ سڑکوں پر آرہے ہیں۔ یہ ایک نازک صورتحال ہے۔ تیونس کے بعد کئی مسلم ملکوں میں عوامی انقلاب نے حکمرانوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ لبنان کے عوام چاہتے ہیں کہ یہاں کی موجودہ حکومت استعفیٰ دیدے۔ وزیراعظم سعد حریری کو ان حالات کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے اگرچیکہ انہوں نے اپنے سیاسی مشیران کو ہدایت دی ہیکہ وہ 72 گھنٹوں کے اندر ملک کے معاشی بحران کا حل تلاش کریں۔ یہ72 گھنٹوں کا الٹی مٹیم لبنان کے برسوں سے معاشی ابتری کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں تو سڑکوں پر نکل آنے والے عوام کو یہ یقین دلانا ضروری ہیکہ آئندہ ان پر ٹیکسوں کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ لبنان کے عوام کے اصل درد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حالات جوں کے توں رہ جائیں تو پھر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے گا جس کے بعد وزیراعظم سعد حریری سمیت ساری کابینہ کو استعفیٰ دینے کیلئے مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔ عوام لبنان کی باگ ڈور فوج کے حوالہ کرنا چاہتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ موجودہ بحران کو دور کرنے میں حکومت کامیاب ہوسکے گی؟ موجودہ حکومت باقی نہیں رہے گی تو اس کا متبادل فوج ہی ہوسکتی ہے۔ لبنان میں حکمرانی کا بحران ہے تو اسے تبدیل کرنا ضروری ہے تاکہ حالات کو درست کرنے میں مدد مل سکے۔ مسلم ممالک میں معاشی ابتری کے اسباب کا پتہ چلانے کیلئے حکمرانوں کی لبنان، عراق اور مصر کے حالات سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ بیرونی سازشوں کا یقین ہے تو ان سازشوں سے عوام کو واقف کرواکر عوام کی حمایت کے ساتھ منظم طریقہ حکمرانی اور کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ دینا چاہئے۔
صدر روس پوٹن کا دورہ سعودی عرب
توانائی کے سوپرپاور سمجھے جانے والے ممالک سعودی عرب اور روس نے اپنے تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے اہم معاہدے کئے ہیں۔ صدر روس ولادیمیر پوٹن کے حالیہ دورہ سعودی عرب اور شاہ سلمان سے ملاقات کو کافی اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ خلیج میں بڑھتی کشیدگی کو دور کرنے کیلئے بھی صدر روس پوٹن کا دورہ سعودی عرب اہم سمجھا گیا ہے کیونکہ روس کو ایران کا مضبوط حلیف ملک مانا جاتا ہے۔ روس کے ساتھ سعودی عرب کے ملٹی بلین ڈالرس معاہدوں سے کئی شعبوں میں تعاون حاصل ہوگا۔ یہ دورہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل تھا لیکن اس دورہ کو بین الاقوامی سطح پر توجہ نہیں دی گئی۔ 12 سال کے وقفہ میں پوٹن کا یہ پہلا دورہ تھا۔ سعودی عرب کو کل تک صرف امریکہ کا مضبوط حلیف ملک سمجھا گیا تھا۔ سعودی عرب نے اب امریکہ اور مغرب تک ہی اپنے تعلقات محدود نہیں رکھے ہیں۔ روس کے ساتھ شاہ سلمان کی دلچسپی سے یہ ظاہر ہوتا ہیکہ شاہ سلمان امریکہ اور مغربی ملکوں کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی خاص تعلق بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ 1980ء میں سعودی عرب اور روس ایک دوسرے کے حریف تھے لیکن اب حالات بدل رہے ہیں خاص کر شاہ سلمان کے اکٹوبر 2017ء میں دورہ روس کے ایک سال بعد محمد بن سلمان کے صحافی خشوگی کی موت کو لیکر تنازعہ کے تناظر میں جی 20 چوٹی کانفرنس کے موقع پر صدر روس پوٹن کی ولیعہد محمد بن سلمان سے گرمجوشانہ ملاقات اور بات چیت نے سارا معاملہ ظاہر کردیا تھا کہ سعودی عرب اب کسی ایک ملک کے ساتھ محدود نہیں رہ سکتا۔ اس لئے صدر روس نے دو قدم آگے بڑھ کر سعودی عرب کے ساتھ مضبوطی سے کام کرنے کا عہد کیا۔ تاہم روس کے ایران کے ساتھ قدیم تعلقات اور سعودی عرب کے ساتھ نئی دوستی کے درمیان یہ اشارہ ملتا ہیکہ خلیج میں پیدا شدہ کشیدگی کو دور کرنے کیلئے پوٹن ایران اور سعودی عرب کے درمیان امن کے پیامبر کا رول ادا کریں گے۔