مسلم ووٹوں کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ

,

   

ناسمجھو گے تو مٹ جاؤ گے …
آئندہ انتخابات میں مجلس 50، ٹی آر ایس اور کانگریس کی تمام 119 حلقوں پر مقابلہ کی تیاری
بی جے پی ہندو ووٹ حاصل کرنے کوشاں

حیدرآباد۔ 21 ستمبر (سیاست نیوز) ملک کی دیگر ریاستوں کے بہ نسبت تلنگانہ میں مسلمانوں کا فیصلہ کن موقف ہے۔ مسلمان کسی بھی جماعت کو اقتدار حوالے کرنے اور کسی بھی جماعت کو اقتدار سے محروم کرنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ فرقہ پرست طاقتیں ملک کے سیاسی ڈھانچے کو زہر آلود کرنے کیلئے خصوصی ایجنڈے پر مائیکرو لیول تک پہنچ کر کام کررہی ہیں۔ 80 – 20 فارمولہ پر کام کرتے ہوئے ہندوؤں کو متحد کرنے کے فلسفہ پر کاربند ہے، مختلف ریاستوں کے حالیہ انتخابات میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ ایک طرف اکثریتی طبقہ کے ووٹوں کو متحد کررہی ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم کرانے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ ہندوتوا طاقتوں کی نظریں پر سکون تلنگانہ پرمرکوز ہوگئی ہیں۔ مغربی بنگال کے انتخابات میں جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے وہی پالیسی تلنگانہ میں دہرانے کی حکمت عملی پر کام کیا جارہا ہے۔ اس پر تلنگانہ کے مسلمانوں کو جوش کے بجائے ہوش سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وقت نکل جانے کے بعد ہاتھ مسلتے رہنے اور ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے سے جو نقصان ہوگا اس کی آئندہ پانچ سال تک پابجائی ہونے والی نہیں ہے بلکہ ان پانچ سال تک کیا کچھ ہو سکتا ہے اس کی زندہ مثال کرناٹک، اترپردیش اور آسام ہیں جہاں کی حکومتیں اسلام ، دینی مدارس، حجاب کے علاوہ دوسرے امور پر مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنانے کا کوئی بھی موقع نہیں گنوا رہی ہیں۔ کیا تلنگانہ میں بھی مسلمانوں کو ایسے چیلنجس کا سامنا کرنا چاہئے؟ مسلمانوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹی آر ایس آئندہ انتخابات میں ہیٹ ٹریک کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ کانگریس پارٹی اب نہیں تو کبھی نہیں کا ٹارگیٹ مختص کرتے ہوئے کام کررہی ہے۔ بی جے پی فرقہ پرستی اور نفرت کا ماحول پیدا کرتے ہوئے اقتدار کے زینے تک پہنچنے کے لئے ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ ریاست تلنگانہ میں 119 اسمبلی حلقے ہیں جن میں 20 ایسے اسمبلی حلقے ہیں جہاں مسلمان خصوصی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے کامیاب ہوسکتے ہیں تاہم ملک کی تازہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر ان اسمبلی حلقوں پر مسلمان مقابلہ کرتے ہیں تو اس سے فرقہ پرستوں کو فائدہ پہنچنے کے زیادہ سے زیادہ امکانات ہیں کیونکہ بی جے پی ہر مسئلہ کو ہندو ۔ مسلم کرتے ہوئے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔ ایسے ماحول میں مسلم امید وار کا مقابلہ کرتے ہوئے کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ریاست میں 40 ایسے اسمبلی حلقے ہیں جہاں کے مسلم ووٹرس نتائج پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ فی الحال ریاست میں سیاسی ماحول غیر واضح ہے۔مگر ہر جماعت کے اپنے اپنے عزائم ہیں اور ہر کوئی تمام حلقوں پر مقابلہ کرنے کا راست یا بالواسطہ اعلان کررہی ہے۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہیکہ اترپردیش میں 100 سے زائد اسمبلی حلقوں پر مقابلہ کرنے والی مجلس تلنگانہ میں 50 اسمبلی حلقوں پر مقابلہ کرنے کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے، کیونکہ مجلس پر بھی زیادہ سے زیادہ حلقوں پر مقابلہ کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں مجلس قیادت نے شہر کے مزید حلقوں کے علاوہ اضلاع کے چند حلقوں پر مقابلہ کرنے کے اشارے دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ کانگریس ٹی آر ایس اور بی جے پی نے بھی ابھی تک تنہا تمام اسمبلی حلقوں پر مقابلہ کا اعلان کیا ہے۔ مستقبل میں ٹی آر ایس کے کمیونسٹ جماعتوں، بی جے پی، تلگو دیشم یا جنا سینا سے اتحاد کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں ہندوتوا طاقتوں نے جو منصوبہ تیار کیا ہے اس سے مسلمانوں کے ووٹ تینوں جماعتوں کانگریس، ٹی آر ایس اور مجلس میں تقسیم ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ اس لئے ابھی سے مسلمانوں کو اپنے ووٹ تقسیم ہونے سے بچانے کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ کانگریس کی جانب سے فراہم کردہ 4 فیصد مسلم تحفظات پر سپریم کورٹ کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اگر ٹی آر ایس حکومت سپریم کورٹ میں 4 فیصد مسلم تحفظات کا دفاع کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو یقینا مسلمان ٹی آر ایس سے ناراض ہوسکتے ہیں اور ان کا جھکاؤ کانگریس کی طرف ہونا فطری بات ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ٹی آر ایس نے مسلمانوں سے کئے گئے 12 فیصد مسلم تحفظات کو فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ٹی آر ایس سے مسلمانوں کی ناراضگی کی یہ بھی ایک وجہ بن سکتی ہے۔ شاید چیف منسٹر کے سی آر کو اندازہ ہوگیا ہیکہ سپریم کورٹ میں 4 فیصد مسلم تحفظات ختم ہو جائیں گے ۔ انہوں نے ایس ٹی طبقات کو 10 فیصد تحفظات دینے کا اعلان کردیا، ساتھ ہی گریجن بندھو اسکیم پر عمل کرنے کا اعلان کردیا۔ دلت بندھو اسکیم پر پہلے سے عمل آوری ہو رہی ہے مگر پہلے ہر اسمبلی حلقہ میں 100 دلتوں کو اس اسکیم سے فائدہ پہنچانے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم حالیہ کابینہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہر اسمبلی حلقہ میں 500 حلقوں کو اس اسکیم سے فائدہ پہنچایا جائے گا۔ مسلمانوں کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے ٹی آر ایس، ایس سی، ایس ٹی طبقات کی زیادہ سے زیادہ تائید حاصل کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ ن