ملازمتوں او رترقی پر دھماکو خیز داستان

,

   

اب ہمارے پیچھے الیکشن کے ساتھ ایک امیدیہ پیدا ہوگئی ہے کہ مذکورہ حکومت کی نئی ٹیم معیشت کو بحال کرنے کے لئے میدان میں اتر جائے گی۔

ہندوستان کی جے ڈی پی ترقی سال2011-2016کے 6.9کے مقابلہ میں 3.5-5.5سے کم ہوکر 2.5ہوگئی ہے یہ ایک پروپگنڈہ جس کے متعلق فی الحال جوامریکہ میں ہیں سابق چیف معاشی مشیر اروند سبرامنیم نے اس کو حکومت کا ایک پروپگنڈہ کا حوالہ دے کر پیش کئے جانے والا بیان ایک بم ثابت ہورہا ہے۔

حکومت کے مختلف اداروں نے اس اعداد وشمار کی مدافعت میں آگے ائے‘ مگر حقیقت کا پورا یقین وزیراعظم نریندر مودی پر ہے جنھوں نے پچھلے ہفتہ دوکابینی کمیٹیوں کی تشکیل عمل میں تاکہ وہ کمزور معیشت‘ ترقی اور ملازمتوں کے چیالنج کا حل تلاش کرے

۔حقیقت میں یہ تعجب کی بات ہے کہ مذکورہ حکومت کی اپنی لیبر منسٹر ی نے ایک تفصیلات پیش کی ہے جس میں 7.8فیصد ہنر مند شہری نوجوانوں کو بے روزگار بتایاگیاہے۔ وہی دیہی علاقوں کاتناسب 5.3فیصد کا ہے۔

بے روزگارعورتوں کابھی تناسب ٹھیک اسی طرح کا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ملازمت کی مارکٹ میں ہرسال 7-10ملین لوگ داخل ہوتے ہیں۔

اگر ایک مرتبہ ایسے صورتحال کا تصور کیاجائے تو رونا آجائے گا۔ اگر یاد کریں تو عامانتخابات سے قبل‘ مذکورہ حکومت نے بے روزگاری کے اعداد وشمار کو کم کرکے اس کی لیبر منسٹری نے انکشاف کیاتھا کہ 45سالوں میں سب سے زیادہ ہے‘ مجموعی آبادی کا 6.1فیصد ہے۔

تاہم ان اعداد وشمار کا افشاء ایک نیوز پیپر نے کیاتھا۔ مسٹر سبرامنیم نے غیراردۃً ’بے روزگاری میں اضافہ“ کا حالیہ دنوں میں دھماکو داستان پیش کی ہے۔ جیسااس میں دیکھا گیا ہے کہ ترقی نہیں ہورہی ہے‘ اور ملازمتیں تشکیل نہیں پارہی ہیں۔

یہاں تک کہ ب‘ سرمایہ کاریوں کی وجہہ سے نئے نوکریوں کے موقع نہیں مل رہے ہیں اورخانگی سیکٹر کی جانب سے بھی نئی نوکریاں نہیں آرہی ہیں۔

مرغی او رانڈے جیسے حالت بنی ہوئی ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ معاشی شروعات کو اگر دیکھیں تو تازہ صنعتی پیدوار کی تعداد 3.4فیصد پر ہے‘ جس کا کوئی اشارہ ہے۔

ایک امید یہ ہے کہ الیکشن کے بعد ہمارے لئے حکومت کی نئی ٹیم معیشت میں سدھار لانے کے لئے میدان میں اتاری گئی ہے