مودی ۔ ژی جن پنگ ملاقات

   

ایسے تعارفات کئی بار ہوچکے
یہ اور بات ہے کہ تعلق نہ بڑھ سکا
مودی ۔ ژی جن پنگ ملاقات
ہند ۔ چین باہمی تعلقات کو ایک نئی بلندی پر لے جانے کی کوشش کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے چینائی میں صدر چین ژی جن پنگ کا شاندار خیرمقدم کیا۔ دونوں قائدین کی باہمی ملاقات سے حالیہ کشیدگی کو دور کرنے میں مدد ملنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ ہند۔ چین کے درمیان ویسے تو کئی نازک مسائل اور تنازعات ہیں لیکن دونوں جانب کی قیادت جب کبھی مذاکرات کی میز پر پہنچی ۔ سطحی بات چیت کرکے مسائل کو جوں کا توں چھوڑ دیا ۔ اس مرتبہ بھی دونوں ممالک کے سربراہوں نے ڈوکلم مسئلہ پر بات چیت کا عزم ظاہر کیا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ ٹاملناڈو کے مہابلی پورم پہنچنے والے چین کے صدر ژی جن پنگ سے تقریباً 5 گھنٹے تک بات چیت اور دوسرے دن دہشت گردی و تجارت پر مودی ۔ ژی جن پنگ تبادلہ خیال کو کامیاب رخ دیا جائے تو یہ ایک اچھی تبدیلی سمجھی جائے گی۔ وزیراعظم مودی نے نہایت ہی خوشگوار اور کھل کر یہاں صدر سے بات چیت تو کی ہے لیکن اسی خوشگوار اور گرمجوشانہ ماحول سے استفادہ کرتے ہوئے اہم فیصلے کئے جانے کی ضرورت تھی تاہم دونوں قائدین نے ہندوستان اور چین کے عوام کے مابین تاریخی اور ثقافتی تعلقات کے تانے بانے کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ تجارتی توازن دہشت گردی اور مذہبی کٹر پسندی کو دور کرنے پر مل جل کر کام کرنے کی ضرورت سے اتفاق کیا ہے۔ صدر چین کے ساتھ وزیراعظم کی یہ چوٹی ملاقات دوسری مرتبہ ہوئی ہے۔ مودی نے اپنے قومی ویژن، حکومت کی ترجیحات، اقتصادی ترقی کے نشانہ کو پہنچنے جیسے امور کی جانب توجہ دلائی ہے تو انہیں تجارتی شعبہ میں بڑھتی پیشرفت اور ہندوستانی مارکٹ تک چین کی اشیاء کی رسائی کے بارے میں بھی بات چیت کرنی چاہئے تھی۔ جب بھی عالمی سطح کے قائدین سے وزیراعظم مودی کی ملاقات ہوتی ہے تو دہشت گردوں کا موضوع بھی زیرغور آتا ہے۔ اس مرتبہ بھی مودی نے ژی جن پنگ سے دہشت گردی کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس لعنت کو انسانیت کیلئے چیلنج قرار دیا۔ عالمی فورم ہو یا علاقائی اجلاس ہر جگہ دہشت گردی سے نمٹنے کی بات کی جاتی ہے۔ تمام ممالک کو مل کر ہی اس خطہ کے خلاف کمربستہ ہونے کی ضرورت ظاہر کرنے کے باوجود دہشت گردی سے نمٹنے کا پیمانہ طئے نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہیکہ بعض ممالک پر دہشت گردی کی سرکاری سرپرستی کا بھی الزام ہے۔ چین کا ایک طرف ہندوستان سے کئی موضوعات پر اختلاف اور دوسری طرف امریکہ کے ساتھ اس کی تجارتی کشیدگی کے تناظر میں ہندوستان کی امریکہ اور اس کے حلیف ممالک سے روابط بھی رضاکارانہ طور پر محدود ہیں۔ اس لئے چین کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات مشکل لمحہ سے گذر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے قائدین کی ملاقات میں ٹھوس مسائل پر بات چیت کرکے ان مسائل کی یکسوئی کی کوشش کی جانی چاہئے تھی۔ چین کیلئے ہندوستان کی خارجہ پالیسی ایک کڑی آزمائش سے کم نہیں ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے ہی 3 دہوں قبل سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے بیجنگ کا دورہ کیا تھا۔ اس دورہ سے دونوں جانب کئی بنیادی اختلافات دور ہوئے تھے اور 1988ء میں دونوں ملکوں کے معتمدین خارجہ سطح کی مذاکرات کا آغاز کیا اور 2003ء میں خصوصی نمائندوں کو اختیارات دیتے ہوئے تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ اس کے باوجود چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ، تجارتی انحطاط جیسے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکا۔ دونوں ملکوں کو سفارتی سطح پر اپنے روابط کو مضبوط اور خوشگوار بنانے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دونوں جانب طاقت اور قوت کے توازن میں ہونے والے فرق کو دورکرلیا جائے تو ہند ۔ چین تعلقات میں موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے پیشرو وزرائے اعظم کی پالیسی سے ہٹ کر اپنی ڈپلومیسی کو اختیار کیا ہے تو چین کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے سے متعلق بھی وہ کافی پرامید نظر آتے ہیں۔ تاہم گذشتہ پانچ سال کے دوران نریندر مودی کے سامنے چین کے تعلق سے کئی شکایات اور واقعات آئے ہیں لیکن ان کو نظرانداز کرتے ہوئے چین کے ساتھ تعلقات کو نئی بلندی پر لے جانے کی کوشش اچھی پیشرفت ہے۔
آر ایس ایس ، بی جے پی نے ملک کی معیشت کو پیچھے ڈھکیل دیا
ہندوستان میں صنعتی پیداوار میں انحطاط کا ڈیٹا خود حکومت نے جاری کیا ہے۔ اس ڈیٹا سے یہ بات واضح ہوتی ہیکہ ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ صنعتی پیداوار میں کمی اور صارفین کی قوت خرید میں کمی نے ساری معاشی صورتحال کو عیاں کردیا ہے۔ حکومت کے ڈیٹا میں بتایا گیا کہ اگست میں ہی ہندوستانی صنعتی پیداوار میں 1.1 فیصد کی کمی آ گئی ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے بھی یہ نشاندہی کی ہیکہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے مل کر ملک کی معیشت کو ماقبل اصلاحات کے دور میں ڈھکیل دیا ہے۔ اضافی ڈیوٹیز اور تحفظاتی اقدامات نے ملک کی معاشی صورتحال کو بدترین صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ آر ایس ایس سے وابستہ تنظیموں نے اضافی ڈیوٹیز عائد کرنے اور اندرون ملک صنعت کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ دن بہ دن معاشی ابتری کی کیفیت سے عوام پریشان ہورہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ابتدائی دورحکومت میں ’’میک ان انڈیا‘‘ پالیسی بنائی تھی لیکن یہ پالیسی ہندوستانی صنعتی شعبہ کو نقصان پہنچانا شروع کیا ہے تو اس پر فوری توجہ دینی چاہئے۔ آر ایس ایس سے وابستہ تنظیم سودیشی جاگرن منچ نے ریجنل کمپرہنسو اکنامک پارٹنر شپ (RCEP) کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح کے واقعات تشویشناک ہیں۔ لہٰذا حکومت اور ماہرین معاشیات کو ملک کی موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کرنے پر غور کرنا ضروری ہے۔ حال ہی میں ملک کے کئی نامور ماہرین معاشیات جیسے سمیکا روی رکن پی ایم اکنامک اڈوائزری کونسل، روپا پرشوتم چیف اکنامسٹ، ریتودیوان اور دیگر نے یہ تسلیم کیا ہیکہ ہندوستانی معیشت کو سست روی کا سامنا ہے۔ عالمی کساد بازاری اور تجارتی جنگ نے بھی ہندوستان کے اندر پیداوار کی شرح گھٹا دی ہے۔ نوٹ بندی کے بعد سے ملک بتدریج معاشی زوال کا شکار ہے۔