مور کا شکوہ

   

برسات کا موسم تھا ، ہر طرف جل تھل ہورہا تھا۔ جنگل میں ایک مور خوشی کے عالم میں ناچ رہا تھا ، اچانک اسے اپنی بھدی اور بھونڈی آواز کا خیال آیا تو اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑگیا اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ اسی وقت مور کی نظر بلبل پر پڑی ، جو ایک قریبی درخت پر بیٹھی میٹھے گیت گارہی تھی ۔ کچھ دیر تک مور اس بلبل کے میٹھے گیت سنتا رہا ۔ پھر خود سے کہنے لگا۔ ’’ اس بلبل کی آواز کتنی پیاری ہے اور یہ کتنے خوبصورت گیت گاتی ہے ،
سب ہی اس کے گیت شوق سے سنتے ہیں اور اس سے خوب پیار کرتے ہیں لیکن جب بھی میں اپنے حلق سے ایک آواز بھی نکالتا ہوں تو سب مجھ پر ہنستے ہیں اور میرا مذاق اُڑاتے ہیں ، میں بھی کتنا بدقسمت ہوں ۔ ‘‘ ابھی موریہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسی وقت دیوتاوں کی سردار جیوپیٹر کی بیوی جونا وہاں آگئی ، اس نے مور سے کہا ’’ تم اُداس کیوں ہو ؟ ‘‘ مور نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا ۔ ’’ مجھے خدا نے اتنا خوبصورت جسم دیا ہے ، جس کی سب ہی تعریف کرتے ہیں لیکن میری آواز اس قدر بھونڈی اور بھدی ہے کہ سب اس آواز پر ہنستے ہیں اور جسمانی خوبصورتی بے کار رہتی ہے ۔ ‘‘ مور کی بات سن کر جونا نے کہا ۔ ’’ میں نے صرف تمہیں ناخوش دیکھا ہے ، ورنہ ایسے بے شمار جاندار ہیں ، جنہیں خدا نے تم جیسا حسن اور خوبصورتی بھی دی ہے اور تم جیسی بہت سی خصوصیات بھی دی ہیں جیسے تمہیں اگر خوبصورتی دی ہے تو عقاب کو طاقت دی ہے ، بلبل کو میٹھی آواز دی ہے اور اسی طرح دوسرے جانداروں کو بھی بہت کچھ عطا کیا ہے ۔ اس لئے اپنی کمزوریوں پر شکوہ نہ کرو بلکہ انہیں تسلیم کرتے ہوئے خوش رہنا سیکھو۔ ‘‘ نتیجہ : معلوم ہوا کہ کسی بھی جاندار کوا پنی کسی کمزوری یا خامی پر دکھ کا اظہار نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس سچائی کو قبول کرتے ہوئے ہمیشہ خوش رہنا چاہئے ۔