مولانا جعفر پاشاہ ہم سے اُلجھ پڑے ، پولیس کا دعویٰ

,

   

وزیر داخلہ محمود علی کے روبرو پولیس عہدیداروں نے مولانا کو غلط بتایا
حیدرآباد۔ ریاستی وزیر داخلہ محمد محمود علی نے آج حال ہی میں مولانا جعفر پاشاہ حسامی کے ساتھ افضل گنج میں پیش آئے واقعہ جس کی ویڈیوز مختلف سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں اور آج کے اخبارات میں بھی اس کی خبریں شائع ہوئیں ہیں کے متعلق متعلقہ پولیس افسران ایڈیشنل کمشنر آف پولیس دیویندر اور انسپکٹر رویندر ریڈی کو اپنے دفتر بلا کر تمام تفصیلات حاصل کیں۔ اس موقع پر متعلقہ پولیس افسران نے وزیر داخلہ کے سامنے تفصیلات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مولانا جعفر پاشاہ حسامی صاحب قابل احترام شخصیت ہیں۔ وہ دوپہر 2.03 بجے افضل گنج، نیاپل سے گزر رہے تھے چونکہ نرمی کا وقت ختم ہو کر لاک ڈاؤن کا وقت شروع ہو چکا تھا۔ اس لیے قوانین کے مطابق تمام گاڑیوں کو روک کر معلومات حاصل کی جا رہی تھیں کہ وہ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔ اتنے میں مولانا جعفر پاشاہ حسامی صاحب سے بھی یہی پوچھا گیا جس پر مولانا نے ڈیوٹی پر موجود پولیس عہدیداروں کو مناسب جواب نہ دیتے ہوئے الجھ پڑے۔ اور کہا کہ بغیر کسی سوال کے انہیں جانے دیا جائے۔ وزیر داخلہ نے پولیس افسران سے کہا کہ مولانا جعفر پاشاہ حسامی صاحب ایک معروف اور مذہبی شخصیت ہے، جن کی ہم کافی عزت کرتے ہیں۔ انہوں نے (مولانا جعفر پاشاہ حسامی) دعویٰ کیا ہے کہ وہ دو بجے سے قبل افضل گنج سے گزر رہے تھے، پھر بھی انہیں روکا گیا، اس کی وجہ کیا ہے؟ پولیس عہدیداران نے کہا کہ دو بجے سے پہلے کسی سواری یا شخص کو نہیں روکا گیا، کیونکہ دو بجے وہ لوگ افضل گنج پولیس اسٹیشن سے نکلے اور دو بجے کے بعد جبکہ نرمی کا وقت ختم ہو چکا تھا، لوگوں کی سواریوں کو روک کر معلومات حاصل کرکے انہیں بھیجا جارہا تھا۔ پولیس افسران نے یہ بھی کہا کہ مولانا جعفر پاشاہ حسامی صاحب نے ہمارے سوالات کے صحیح جوابات نہ دیتے ہوئے غیر ضروری طور پر پولیس والوں سے الجھ پڑے اور بغیر سوچے سمجھے پولیس والوں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کر رہے تھے، جس کے لیے ان کی گاڑی کو بازو کھڑا کیا گیا تاکہ دوسرے مسافروں کو تکلیف نہ ہو، اتنے میں مولانا جعفر پا شاہ صاحب نے غیر ضروری طور پر ہنگامہ برپا کیا اور سڑک کے کنارے آ کر بیٹھ گئے۔ پولیس افسران نے کہا کہ مولانا جعفر پاشاہ پولیس افسران پر ہندو مسلم میں فرق کر نے اور کسی ایک مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنانے کا بے بنیاد الزام بھی لگایا ہے۔ پولیس افسران کوویڈ وباء کے دوران اپنے خاندان کی پرواہ کیے بغیر چوبیسوں گھنٹے عوام کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ نرمی کے اوقات کے بعد عوام کی حفاظت کے لیے اور کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قوانین پر عمل کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں جس کو مولانا جعفر پاشاہ نے نظر انداز کرتے ہوئے پولیس پر بے بنیاد الزام عائد کیا ہے۔ متعلقہ پولیس افسران نے ثبوت کے طور پر واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دکھائی جس میں صاف ظاہر ہورہا ہے کہ مولانا جعفر پاشاہ حسامی ٹاٹا انڈیکا، سرخ گاڑی میں سوار ہیں اور 2.03 بجے یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پولیس افسران کے نزدیک ہندو مسلم اور دیگر مذاہب کے لوگ یکساں ہیں، کسی کے ساتھ رواداری نہیں برتی جاتی کیونکہ قانون سب کے لئے یکساں ہوتا ہے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ مولانا جعفر پاشاہ حسامی کے متعلق سوشیل میڈیا پر خبریں دیکھنے کے بعد انہیں بے چینی محسوس ہوئی۔ انہوں نے فوری متعلقہ پولیس افسران سے وضاحت طلب کی جس پر یہ واضح ہوگیا کہ پولیس افسران اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے اور کووڈ قوانین پر عمل کررہے تھے۔ یقیناً مولانا جعفر پاشاہ کی گاڑی دوپہر 2.03 بجے افضل گنج، نیا پل پر پہنچی۔ اس کی ویڈیو فوٹیج محفوظ ہیں جس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس مسئلہ کو سوشل میڈیا کی وجہ سے غیر ضروری طور پر عام کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ نے سوشیل میڈیا استعمال کرنے والوں سے کہا کہ کسی بھی خبر کی تحقیق کئے بغیر نشر نہ کیا جائے۔ اور غیر ضروری طور پر چھوٹی سی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں۔ اس سے عوام کو پریشانی ہوتی ہے۔ وزیر داخلہ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ نرمی کے اوقات میں اپنی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کا وقت شروع ہونے سے پہلے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو جائیں تاکہ کورونا وبا کو پوری طرح ختم کیا جا سکے۔