مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری

   

سعید حسین
برصغیر ہند و پاک کے مایۂ ناز سپوت، شعلہ بیان مقرر، جانباز مجاہد آزادی، درویش صفت قائد ، دبے کچلے عوام کے غم خوار، فرنگی سامراج کے کٹر مخالف، تحریک آزادی کے سپہ سالار جس نے سارے برصغیر میں اپنی جادو بیانی سے طوفان بپا کردیا تھا، اس شخصیت کا نام مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ہے جنہیں رئیس الاحرار، امیر شریعت پنجاب، واعظ خوش بیان کے القاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری مجسم اخلاص و محبت کے پیکر درویش صفت انسان، ممتاز سیاستدان، مذہبی رہنماء ، سوشل ریفامر، پارسا، حق گو، اُردو فارسی اور عربی کے عظیم عالم، اعلیٰ پایہ کے شاعر تھے۔ ان کی زندگی جدوجہد آزادی کا روشن ترین باب ہے۔ ان کی آواز میں شیروں جیسی گونج تھی۔ ان کا شمار اپنے وقت کے صف اولین کے مقررین میں کیا جاتا تھا۔
مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی سیاسی زندگی کا آغاز 1919ء میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک میں شمولیت سے ہوا۔ انہوں نے نہ صرف امرتسر پنجاب میں بلکہ پورے ملک میں فرنگی سامراج کے رولٹ ایکٹ کے خلاف تقاریر سے طوفان بپا کردیا۔ 9؍اپریل 1919ء کو امرتسر رام نومی کے تاریخی جلوس میں مولانا بھی شامل تھے۔ جس نے ہندو مسلم سکھ اتحاد کا بہترین نمونہ پیش کرکے اس جلوس کو خلاف سامراج مظاہرہ میں تبدیل کردیا تھا۔ 10؍اپریل 1919ء کو امرتسر میں فرنگی حکمرانوں نے پرامن جلوس پر گولیاں چلا کر بیس کے قریب ہندو مسلمانوں اور سکھوں کو شہید کردیا تھا۔ ان شہیدوں کو مشترکہ طور پر مولانا نے چوہدری بگامل کی معیت میں اپنے ہاتھوں سے مسجد خیر الدین میں غسل دیا۔ 13؍اپریل 1919ء کو جلیانوالہ باغ کے خونیں واقعہ کے دوران مولانا سرگرمی سے تحریک آزادی میں کود پڑے۔ اس کے بعد انتہائی ظلم وستم، قید و بند، گھریلو مصائب، انتہائی غربت بھی مولانا کو اس پر وقار راستے سے ہٹانہ سکی۔ مولانا نے اپنی جوانی بلکہ ساری زندگی تحریک آزادی کی نذر کردی ۔
تحریک خلافت کے دوران 27؍مارچ 1921ء کو مولانا کو امرتسر میں گرفتار کرلیا گیا اور انہیں تین برس قید بامشقت کی سزاء ملی۔ یہ ان کی پہلی سزایابی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے نمک ایجی ٹیشن، کمیشن کے بائیکاٹ، انفرادی سول نافرمانی، جنگ میں انگریزوں سے ترک موالات کی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ غرض کہ برطانوی سامراج کے خلاف کوئی بھی ایسی تحریک نہیں، جس میں مولانا نے نمایاں حصہ نہ لیا اور قید و بند کی صعوبتیں نہ جھیلیں ہوں۔ سائمن کمیشن کے خلاف لاہور میں لالہ لاجپت رائے کے دوش بدوش مولانا پہلی قطار میں تھے۔ تحریک آزادی کے دوران مولانا سات بار جیل گئے اور اپنی عمر کا ایک تہائی حصہ جیلوں میں گزارا۔
1928ء میں مولانا نے انڈین نیشنل کانگریس سے بدظن ہوکر مجلس احرار الاسلام کی بنیاد رکھی۔ وہ اس کے بانی صدر تھے۔ مجلس احرار نے برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد میں نمایاں حصہ لیا۔ تاریخ میں وہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ مجلس احرار میں مولانا کے ہمراہ صاحب زادہ فیض الحسن، چوہدری افضل حق، آغاز شورش کاشمیری، مولانا مظہر علی اظہر،قاضی احسان احمد شجاع آبادی، کامریڈ عبدالکریم وزیر آبادی اور دوسرے سینکڑوں جانباز اور نامور شخصیتیں شامل تھیں۔ مولانا کے علم اور عمل کا احترام کرکے علماء نے امیر شریعت پنجاب کے رتبہ پر فائز کیا۔ مولانا کے علم و فضل اور جانبازی و شیردلی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین اور عالم مولانا انور شاہ جو کہ ایک لحاظ سے مولانا بخاری کے استاد تھے۔ 1930ء میں لاہور کے انجمن خدام الدین کے جلسے میں بخاری صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ بات حیرت انگیز تھی۔ لیکن مولانا انور شاہ نے اس وقت کی نوجوان نسل کے قائد عطاء اللہ شاہ بخاری کی صلاحیتوں کا پورا اندازہ لگایا تھا۔ اس سلسلے میں ’’انقلاب‘‘ لاہور میں شائع شدہ ایک طویل نظم کے یہ مصرعے انتہائی قابل غور ہیں۔
کی ہے اک شاگردکی استاد نے بیعت قبول
بڑھ گیا ہے مہر سے کس قدر رتبہ ماہ کا
انقلاب آسماں دیکھو کہ اک ادنیٰ مرید
انور شاہ جیسا ہے عطاء اللہ کا
مولانا انور شاہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے اس قدر متاثر تھے کہ ہر وقت اُن کا حال احوال ہی نہیں پوچھتے رہتے تھے بلکہ علماء کو ان کی تقلید کرنے کی ہدایت و تلقین کرتے تھے۔مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی تقاریر میں عوام کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ ان کی کوئی تقریر چھ گھنٹے سے کم نہیں ہوتی تھی۔ بعض اوقات انہوں نے عشاء کی نماز کے بعد تقریر شروع کی اور فجر کی نماز کے موقع پر ختم کی۔ لیکن ہزاروں لاکھوں کا مجمع بت بنا سنتا رہتا تھا۔ اس مجمع میں اگر ایک تنکا بھی آگرے تو اس کی آواز سنی جاسکتی تھی۔ مولانا کی زبان میں جادو تھا۔ ان کی تقریر اس قدر جذباتی ہوتی تھی کہ اگر حاضرین کو رُلانے پر آتے تو لوگ زار و قطار اور زور زور سے رونے لگتے اور مولانا کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کی دھار بہہ نکلتی تھی اور پھر مولانا ہنسانے پر آتے تو لوگ کھلکھلا کر قہقہے مارنے لگتے۔ مولانا کی تقاریر سننے میں نہ صرف عوام بلکہ خواص بھی زبردست دلچسپی رکھتے تھے۔ مولانا کے گلے میں اتنا رس تھا۔ مولانا کی قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا انداز نرالا تھا۔ اور انتہائی دلچسپ ہوتا تھا۔ جو سمجھتا تھا وہ تو سر دھنتا ہی تھا۔ لیکن جو معنی نہیں سمجھتا تھا۔ وہ بھی سر دھننے لگتا تھا۔ یہ ایک قابل امر واقع ہے کہ 26؍اپریل 1947ء کو جامع مسجد دہلی کے باہر مجلس احرار کا جلسہ تھا اور عطاء اللہ شاہ بخاری مقرر تھے۔ ان کی تقریر اور تلاوت قرآن کریم سننے کے لئے لارڈ پیتھک لارنس جو کہ کرپس مشن کے سربراہ تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور پنڈت نہرو خصوصی طور پر شریک جلسہ ہوئے۔
مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو زیر کرنے کے لئے برطانوی استعمار پسندوں اور ان کے حاشیہ برداروں نے کئی حربے زیر کار لائے۔ لیکن وہ اس مرد مجاہد کی گردن طاغوتی قوتوں کے آگے خم نہ کرسکے۔ اس طرح کی ایک کوشش سرسکندر حیات خان وزیراعظم پنجاب نے بھی کی اور مولانا کے خلاف زیر دفعہ 302، 103 وغیرہ کے تحت بغاوت و انگخیت قتل کا مقدمہ چلایا۔ اس مقدمے کی سماعت 11مارچ 1940ء کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک بنچ میں شروع ہوئی۔ جو کہ جسٹس ینگ اور جسٹس رام لال پر مشتمل تھا۔ اس مقدمہ کو ملک گیر شہرت ملی اور اس میں لدھارام نامی ہیڈ کانسٹبل چیف رپورٹر گواہ کی حیثیت میں پیش ہوا۔ لیکن بھری عدالت میں اس نے یہ اقرار کیا کہ اس نے بخاری صاحب کی تقریر کی رپورٹ اعلیٰ حکام کی ہدایت پر مرتب کی ہے۔ اس سازش کو ناکام کردیا گیا اور عدالت عالیہ نے شاہ صاحب کو باعزت طور پر بری کردیا۔
مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری اپنے عقائد کے لحاظ سے انتہائی راسخ العقیدہ تھے۔ زندگی میں جو موقف انہوں نے اپنائے رکھا، اُسی کو تا اختتام زندگی اپنائے رکھا۔ وہ تقسیم برصغیر کے مخالف اور مسلم لیگ کے نظریہ سے مخالفت رکھتے تھے۔ اگرچہ انہیں کانگریس سے بھی اختلاف رائے تھی لیکن وہ دونوں سے الگ رہ کر ’’مجلس احرار‘‘ کے پلیٹ فارم سے اپنا نظریہ بیان کرتے رہے۔ 1946ء میں جب کہ مسلم لیگ کی مقبولیت اور نظریہ ٔ پاکستان کی قبولیت مسلم عوام میں اپنی آخری حدود تک پہنچ گئی۔ اُس وقت بھی مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری برصغیر کی تقسیم کے خلاف برسرپیکار رہے۔ مولانا بخاری اور مجلس احرار نے شہید گنج کے تنازعہ میں شہید گنج کی واگزاری کی پوری کوشش کی لیکن جب پنجاب ہائی کورٹ نے اس کے گردوارہ ہونے کا اعلان کردیا تو عوام الناس کو فتنہ و فساد سے باز رہنے کی تلقین کی۔ اس کے باعث ان کے سیاسی مخالفین نے ان پر سخت تہمت لگائیلیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی شہید گنج مسجد نہ بن سکی اور گوردوارہ ہی رہا تو 1958ء میں لاہور کے دلی دروازہ کے باہر بخاری پھر گرج دار آواز میں پوچھا کہ بخاری پر الزام تراشی کرنے والوں نے پاکستان بننے کے بعد شہید گنج کو گوردوارہ سے مسجد کیوں نہیں بنایا؟ حکمرانوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ تنگ نظر ہندو بخاری کو کٹر مسلمان اور فرقہ پرست سمجھتے تھے تو بعض لوگ ان کے خلاف کفر کے فتوے صادر کرتے رہے۔ مولانا بخاری کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم رہے اور علامہ اقبال کے اس شعر کا مصداق بنے رہے ؎
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان ہوں میں
مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری صدق دلی اور مردانہ وار طریقہ سے تا دم آخر اپنے موقف پر قائم رہے۔ نہ حکومتی جبر و تشدد انہیں مرعوب کرسکا اور نہ طمع و لالچ اُن کے پاؤں میں لغزش پیدا کرسکے، نہ عوام کی کم فہمی اور تنگ نظری کے باعث کئی بار الگ تھلگ ہونے کا احساس انہیں اپنی راہ سے ڈگمگا سکا۔ شاید علامہ اقبال نے ان کے ہی متعلق یہ شعر کہا تھا ؎
ہوا ہے گو تندوتیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش کہ جس کو حق نے دیئے ہیں اندازِ خسروانہ
مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا جسد خاکی ملتان میں سات دہائی سے قبل منوں مٹی کے نیچے دفن ہے۔ تقریر و خطابت کے اس شہنشاہ کی موت سے ایک تاریخ ختم ہوگئی۔ ایک عہد گزر گیا، ایک دور مختتم ہوا، ایک چمن سونا ہوا، ایک بہارلٹ گئی، جرأت و شجاعت اور صدق و صفا کا گلشن خزاں آلودہ ہوا، خلوص و دیانت پر افسردگی چھا گئی، اب کبھی شاہ نظر نہیں آتے، ان کی شعلہ بار تقریریں خاموش ہیں لیکن جب بھی انقلاب کے بادل گرجیں گے، بجلی چمکے گی اور موسلا دھار بارش ہوگی، سماج میں طوفان اور سیلاب آئے گا، جب کبھی صبح نو طلوع ہوگی، جب پھول کھلیں گے اور کلیاں مسکرائیں گی، جب کوئی حق گوئی کے جرم کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں سہے گا، اس وقت ہم سب کو سید عطاء اللہ شاہ بخاری ضرور یاد آئیں گے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی 71 سالہ مجاہدانہ زندگی، اُن کے خلوص و دیانت، اُن کی شعلہ بیانی، اُن کی حسین جوانی، ان کی پروقار عمر رسیدگی، ان کے لاکھوں عقیدت مندوں کی طرف سے لاکھوں سلام! نئی نسل کو سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی شخصیت سے واقف کروا کر ان کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دینا اشد ضروری ہے۔ رئیس الاحرار، بطل حریت، امیر شریعت، سید عطاء اللہ شاہ بخاری جنہیں قریبی ساتھی شاہ جی کہہ کر پکارتے تھے، کی یک قلمی تصویر ان کے قریب ترین سیاسی شاگرد آغا شورش کاشمیری نے کھینچی ہے: شاہ جی قرون وسطیٰ کے ان حکماء فقہاء ،خطباء اور علماء سے مشابہ تھے جو طلوع تاریخ سے پہلے یونان و روما اور طلوع تاریخ کے بعد بغداد اور دہلی میں پائے جاتے تھے۔‘‘ اسے اتفاق ہی کہئے کہ بعض اونچی شخصیتیں آپس میں یک گونہ مماثلت ضرور رکھتی ہیں مثلاً فیتا غورث، کارل مارکس، رابندر ناتھ ٹیگور اور شاہ جی میں فکر و نظر، عقیدہ و ایمان اور علم و عمل کی کوئی راہ بھی مشترک نہ تھی لیکن ایسا کچھ بانکپن ضرور تھا کہ ان کا چہرہ مہرہ ایک جیسا سا تھا۔ بہرحال یہ ایک شاعرانہ خیال ہے۔ ان بڑوں کی زندگی ایک خاص طرز رکھتی ہے، جس سانچے میں بھی ڈھلیں ہمیشہ اُبھرے ہوئے ملیں گے۔ یہ کسی کے نقش پا نہیں ڈھونڈتے بلکہ لوگ ان کے نقش پا کی تلاش کرتے ہیں۔ شاہ جی کی زندگی جس نہج پر استوار ہوئی، اس میں ادب اور سیاست کا ایک رومانی امتزاج تھا۔ ظاہر ہے کہ رومانی زندگی کھلی کتاب ہوتی ہے۔ ایسا شخص جذبات پر جیتا اور جذبات پر مرتا ہے۔ اس میں احساس کی شدت اور استغناء کی شراکت تاحد کمال ہے۔ اس کی ذات ہی اس کا پیمانہ ہے، وہ گرد و پیش سے متاثر ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ گرد و پیش اس سے متاثر ہو۔ اس کی روح میں وقت عروج پر ہوتی ہے جب عام چہروں پر اپنا ہی عکس دیکھتا ہے