مہاراشٹرا و ہریانہ میں آج رائے دہی

   

ہم نے تولا ہے جس کو پھولوں میں
وہ ہمیں پتھروں میں تولے گا
مہاراشٹرا و ہریانہ میں آج رائے دہی
ملک کی دو ریاستوں مہاراشٹرا اور ہریانہ میں آج نئی اسمبلیوں کے انتخاب کیلئے رائے دہی ہوگی ۔ انتخابی مہم کا ہفتہ کی شام اختتام عمل میں آیا تھا ۔ دونوںریاستوں میں بی جے پی نے پوری شدت کے ساتھ انتخابی مہم چلائی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی ‘ بی جے پی صدر و و زیر داخلہ امیت شاہ کے علاوہ بی جے پی کے کئی قائدین اور مرکزی وزراء اور دونوں ریاستوں کے چیف منسٹروں دیویندر فرنویس ‘ منوہر لال کھتر اور مہاراشٹرا میں شیوسینا قائدین ادھو ٹھاکرے اور آدتیہ ٹھاکرے نے بھی انتخابی مہم میں پوری شدت کے ساتھ حصہ لیا ہے ۔ کانگریس نے بھی حالانکہ انتخابی مہم چلائی ہے لیکن اس میں وہ دم خم دکھائی نہیں دیا جو انتخابات کے دوران دیکھنے میں آتا ہے ۔ مہاراشٹرا میں این سی پی سربراہ شرد پوار نے حالانکہ انتخابی مہم میں قدرے جان ڈالنے کی کوشش کی تھی لیکن کانگریس اس میں آگے دکھائی نہیں دی ہے ۔ ان ریاستوں میں جو انتخابی مہم رہی ہے اس میں ریاستوں میں عوام کو درپیش مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی ان مسائل پر کوئی اظہار خیال حکومت کی جانب سے کیا گیا جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔ جو سلگتے ہوئے مسائل ہیںخاص طور پر معاشی میدان میں ہونے والی تکالیف اور بحران کی کیفیت کو حکومت نے نظر انداز کردیا ہے ۔ مہاراشٹرا میں مہاراشٹرا ۔ پنجاب بینک ( پی ایم سی بینک ) کے اسکام سے کھاتہ داروں کی رقومات کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اس پر نہ وزیر اعظم نے اور نہ بی جے پی صدر نے کوئی تبصرہ کیا ۔ مہاراشٹرا کے چیف منسٹر نے انتخابی مہم کے اختتامی مرحلہ میں اس کا تذکرہ کیا تاہم انہوں نے حکومت کی خاموشی کو انتخابی ضابطہ اخلاق سے جوڑکر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی ہے ۔ انتخابی مہم کے آغاز سے قبل شرد پوار کو ای ڈی کی نوٹس کی وجہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی تھی اس سے اپوزیشن اتحاد این سی پی اور کانگریس فائدہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس موقع کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے اپوزیشن اتحاد کے پاس کافی موقع تھا لیکن انہوں نے اس موقع کا اتنا سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جتنا اس سے استفادہ کرنے کی گنجائش موجود تھی ۔
کانگریس نے ہریانہ میں بھی حکومت کی ناکامیوں اور اس کے وعدوں کی عدم تکمیل کو شدت کے ساتھ عوام سے رجوع نہیں کیا ۔ نہ معاشی میدان میں بگڑتی ہوئی صورتحال کو اس نے کامیابی سے عوام کے درمیان پیش کیا ہے ۔ کانگریس کی جانب سے راہول گاندھی لمحہ آخر میں انتخابی مہم میں آئے اور اپنے طور پر انہوں نے عوامی مسائل کو پیش کرنے کی کوشش کی لیکن یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ وہ رائے دہندوں پر اس حد تک اثر انداز نہیں ہوسکے ہیں جتنا ہونا چاہئے تھا ۔ سونیا گاندھی حالانکہ کانگریس کی عبوری صدر بنادی گئی ہیں لیکن وہ انتخابی مہم سے دور رہیں جس سے پارٹی کیڈر میں جو روایتی جوش و خروش انتخابات کے دوران ہونا چاہئے تھا وہ نہیں دیکھا گیا ۔ وزیر اعظم نریندرمودی اور امیت شاہ اور بی جے پی و شیوسینا کے قائدین نے قومی سطح کے مسائل کو عوام میں پیش کرتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے دفعہ 370 کو حذف کئے جانے کو اصل انتخابی مسئلہ بنادیا ۔ یقینی طور پر یہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے لیکن دونوں ریاستوں کے عوام کو راست جو مسائل درپیش ہیں ان پر بھی حکومت کو توجہ کرنے کی ضرورت تھی ۔ عوام کے مسائل پر اظہار خیال کیا جانا چاہئے تھا ۔ جو کام کئے گئے ہیں انہیں پیش کیا جانا چاہئے تھا ۔ جو کام باقی رہ گئے ہیں ان کے تعلق سے عوام کو تیقن دینے کی ضرورت تھی لیکن ایسا بالکل نہیں کیا گیا ۔ صرف اپوزیشن پر تنقیدوں پر زیادہ انحصار کیا گیا ۔
دونوں ریاستوں کے ووٹرس کے پاس اب موقع ہے کہ وہ آئندہ پانچ سال کیلئے اپنی حکومتوں کا انتخاب کریں۔ رائے دہندوں کے سامنے یہ موقع ہے کہ وہ اپنے سامنے درپیش مسائل ‘ معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور وعدوں کی تکمیل و عدم تکمیل کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ ہندوستان میں ووٹ ہی وہ عظیم طاقت ہے جو سیاسی جماعتوں کو عروج و زوال کا شکار کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے ۔ حکومتیں ہوں یا اپوزیشن جماعتیں ہوں سبھی کو ووٹ کی اسی طاقت کا احساس دلایا جاسکتا ہے اور یہ ہتھیار ملک کے عوام کو ملک کے دستور نے دیا ہے ۔ اس کا استعمال کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو ان کے وعدے یاد دلانے اور اپنے لئے مستقبل کے فیصلوں کی اہمیت کو ذہن نشین رکھتے ہوئے رائے دہندوں کو کسی کے بہکاوے میں آئے بغیر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے ۔