مہاراشٹرا کانگریس میں اختلافات

   

ملک کی دو ریاستوں مہاراشٹرا اور ہریانہ میں انتخابی ماحول گرم ہوتا جا رہا ہے ۔ سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہونچ چکی ہیں اور انتخابی سرگرمیوں میں بھی تیزی اور شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ ریاست مہاراشٹرا میں برسراقتدار اتحاد نے اپنی انتخابی مفاہمت کو قطعیت دیدی ہے ۔ نشستوں کی تقسیم پر ابتدائی کشاکش کے بعد یہ اتحاد طئے پا گیا ہے اور دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے طور پر بہت پہلے ہی انتخابی مہم شروع کردی ہے ۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹھاکرے خاندان نے گذشتہ نصف صدی میں پہلی مرتبہ انتخابی زور آزمائی کا فیصلہ کیا ہے اور بال ٹھاکرے کے پوتے و شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے کے فرزند آدتیہ ٹھاکرے ممبئی میں ورلی اسمبلی حلقہ سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ آدتیہ ٹھاکرے کے انتخابی میدان میں اترنے سے شیوسینا کارکنوں میں جوش و خروش میں اضافہ ہوگیا ہے اور بی جے پی اپنے اقتدار کے بل بوتے پر پارٹی کیڈر میں جوش و جذبہ پیدا کرنے میں کامیاب ہے ۔ ایسے میں جو اپوزیشن اتحاد کانگریس اور این سی پی کا ہے وہ ایسا لگتا ہے کہ ابتداء ہی سے لڑکھڑاتا جا رہا ہے ۔ دونوں جماعتیں سیاسی اعتبار سے کمزور ہوگئی ہیں۔ ان کے کئی قائدین اقتدار کے لالچ میں شیوسینا یا بی جے پی کی صفوں میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ حالانکہ کانگریس اور این سی پی ان سے کوئی نقصان نہ ہونے کا دعوی کر رہے ہیں لیکن ان کے کیڈر میں جوش و خروش کا فقدان ہے ۔ این سی پی میں شرد پوار کے خلاف مقدمہ کے اندراج سے نئی جان پیدا ہوئی تھی اور اس سے کچھ فائدہ حاصل کرنے کی کوششوں سے پہلے ہی کانگریس میں داخلی اختلافات شروع ہوچکے ہیں۔ ممبئی کانگریس کے سابق صدر سنجے نروپم نے پارٹی کی انتخابی مہم میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سنجے نروپم بذات خود عوام پر کس حد تک اثر انداز ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ تو نہیں لگایا جاسکتا تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان کے فیصلے کی تشہیر سے خود عوام اور پارٹی کارکنوں میں جوش و خروش میں کمی آجائے گی ۔ کانگریس پہلے ہی بحران کا شکار ہے اور ریاستی سطح پر اس کے پاس کوئی مضبوط قیادت نہیں رہ گئی ہے ۔ ایسے میں اختلافات سے مزید مسائل کھڑے ہونگے ۔
ممبئی کانگریس کو ایک باضابطہ ریاستی یونٹ کی اہمیت حاصل رہی ہے ۔ یہاں ادکارہ ارمیلا ماتونڈکر کی پارٹی میں شمولیت کے اندرون چھ ماہ پارٹی سے دوری کی وجہ سے ہی کیڈر میں جوش و خروش ٹھنڈا پڑگیا تھا ۔ ماتونڈکر نے سنجے نروپم پر الزام تراشی کرتے ہوئے ایک مکتوب جاری کردیا تھا ۔ اس کے بعد سنجے نروپم کو ممبئی یونٹ کی صدارت سے ہٹادیا گیا اور ملند دیورا کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ۔ ملند دیورا بھی جلد ہی پارٹی صدارت سے سبکدوش ہوگئے ۔ یہ سب حالات پارٹی کے انتخابی امکانات کو متاثر کرنے کیلئے کافی تھے ۔ اب سنجے نروپم نے ممبئی کے ایک حلقہ سے اپنی پسند کے امیدوار کو ٹکٹ نہ دئے جانے پر انتخابی مہم سے دوری اختیار کرلینے کا اعلان کیا ۔ انہوں نے پارٹی قیادت پر الزام بھی عائد کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ قیادت کو ان کی خدمات کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے ۔ ویسے تو یہ حقیقت ہے کہ کانگریس میں اختلافات کا کلچر عام بات رہی ہے ۔ پارٹی قائدین کی ناراضگیاں اور تنقیدیں بھی اس کا حصہ رہی ہیں لیکن جو حالات مہاراشٹرا کی سیاست کے ہیں اور کانگریس کی وہاں جو کمزوریاں ہوگئی ہیں ان کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سنجے نروپم بذات خود اگر رائے دہندوں اور پارٹی کارکنوں پر اثر انداز نہ بھی ہوپائیں تو ان کے اس اقدام کی تشہیر سے کانگریس کو مزید نقصان ضرور ہوسکتا ہے ۔ اس حقیقت سے خود پارٹی اور اس کے قائدین بھی انکار نہیں کرسکتے ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حالیہ عرصہ میں کانگریس پارٹی میں قومی سطح پر قیادت کا فقدان نظر آنے لگا ہے ۔ حالانکہ راہول گاندھی کی سبکدوشی کے بعد سونیا گاندھی کو پارٹی کی عبوری صدر بنادیا گیا ہے لیکن یہ تقرر بھی برائے نام نظر آتا ہے اور کوئی باضابطہ گرفت اب تک دکھائی نہیں دی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات کی شکست کے بعد سے کانگریس کیڈر کے جو حوصلے پست ہیں ان کو بحال کرنے کیلئے ضروری تھا کہ سونیا گاندھی یا قومی قیادت سرگرم ہوتی اور کیڈر کو اعتماد میں لینے اور عوام کو پارٹی کے قریب لانے کیلئے اقدامات کئے جاتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا ہے ۔ مہاراشٹرا و ہریانہ کے انتخابات کانگریس کو متحرک کرنے کا موقع تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس موقع کو ضائع کیا جا رہا ہے ۔ اس کے نقصانات ہوسکتے ہیں۔ ان سے بچنے کیلئے اور آگے کے حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے پارٹی اور پارٹی قیادت کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے ۔