میت کو کس طرح رکھنا چاہئے

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جب کسی گھرمیں انتقال ہوجاتا ہے تو افراد خاندان کے چند لوگ مختلف باتوں میںاختلاف کرتے نظر آتے ہیں اور عموماً میت کو لٹانے ، میت کے بال میں کنگھی کرنے کے بارے میں اختلاف رائے ہوتاہے تو اس سلسلہ میں دو تین باتیں حل طلب ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔میت کو شرعاً کیسا لٹانا چاہئے ، میت کو سمت قبلہ پیر کر کے لٹائیں یا جانب جنوب ، شرعا کیا حکم ہے ۔ میت کے بالوں کو ترشوانا یا اس میں کنگھی کرنا و ناخن ترشوانا کیسا ہے ؟
جواب : میت کو بوقت غسل یا قبل غسل لٹانے کے متعلق چونکہ کوئی صراحت احادیث میں نہیں پائی گئی اس لئے یہ مسئلہ فقہاء و علماء کے درمیان استدلالی ہوگیا ہے، بعض فقہاء میت کو بیمار پر (ایسا بیمار جو بوقت نماز قیام و قعود پر قادر نہ ہو) قیاس کر کے یہ لکھا ہے کہ میت کو ایسا چت لٹایا جائے کہ اس کے پیر قبلہ کی جانب ہوں اور سر کے نیچے تکیہ و غیرہ دے کر اس قدر چہرے کو بلند کیا جائے کہ اگر میت کو ا ٹھایا جائے تو اس کا چہرہ قبلہ کی جانب ہوجائے ،لیکن یہ استدلال (بیمار پر میت کو قیاس) ضعیف ہے بعض فقہاء نے مکان و مقام کا اعتبار کرتے ہوئے جیسی سہولت ہو میت کو لٹانے کی اجازت دی ہے۔ اکثر فقہاء نے میت کو قبر پر قیاس کر کے یہ حکم دیا ہے کہ میت کو ایسا لٹایا جائے جیسا قبر میں رکھا جاتا ہے یا بوقت نمازِ جنازہ، میت کو رکھا جاتا ہے ، یہ قیاس اقرب الی الفہم و العقل ہے کہ اس میں قبلہ و کعبہ کے آداب بھی ملحوظ رہتے ہیں۔ قبلہ کی جانب پیر دراز کرنا خلاف ادب ہے جیسا کہ فتاوی عالمگیری جلد ۵ ص : ۲۱۹ میں ہے یکرہ مدالرجلین الی الکعبۃ فی النوم و غیرہ عمدا اور فتاوی تاتار خانیہ کتاب صلاۃ الجنائز ص : ۱۳۳ ہے۔ یوضع علی تخت ۔ولم یبین فی الکتاب کیفیۃ وضع التخت الی القبلۃ طولا أوعرضا ، من أصحابنا من اختار الوضع طولا کما کان یفعلہ فی مرضہ اذا أراد الصلاۃ بالایماء ،ومنھم من اختار الوضع عرضا کما یوضع فی القبر ،قال شمس الائمۃ السرخسی : الأصح أنہ یوضع کما تیسر فان ذلک یختلف باختلاف الاماکن والمواضع ۔ میت کے بال داڑھی و سر میں کنگھی کرنا ناخن ترشوانا منع ہے جیسا کہ قدوری باب الجنائز میں ہے : ولا یسرح شعرالمیت ولا لحیتہ ولا یقص ظفرہ ولا یقص شعرہ ۔ فقط واﷲتعالیٰ اعلم