نبی اکرم ﷺ کی دعاؤں کا اعجاز

   

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے ان انگنت معجزات میں ایک معجزہ آپؐ کی دعاؤں کی قبولیت ہے ۔ صحابہ کرام سے تواتر کے ساتھ ایسی احادیث مروی ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر دعاء مقبول ہے نیز ان دعاؤں کی قبولیت اور ان کے حسب منشا نتائج و ثمرات کے ظہور کے اعتبار سے نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس انسانیت کی پوری تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں ، چنانچہ آپﷺ نے مختلف موقعوں پر جو دعائیں مانگیں ان کے حسب منشاء نتائج ظاہر ہوئے۔ مختلف مواقع پر آپ ﷺ نے جو دعائیں مانگیں اور جس طرح بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوئیں ان میں سے چند ایک کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم قریش مکہ کے عناد و انکار پر بنوثقیف کو دعوت دینے طائف تشریف لے گئے ۔ اس موقعہ پر بنوثقیف نے آپ ﷺسے جو سلوک کیا وہ دنیا کی دعوتی تاریخ میں ایک انتہائی اندوہناک اور افسوسناک سانحہ ہے ۔ آپ ﷺ کو اتنے پتھر مارے گئے کہ جسم اطہر لہولہان ہوگیا ، رحمت الٰہی جوش میں آگئی ، حضرت جبرئیل کے ساتھ پہاڑوں پر مامور فرشتہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور بنوثقیف کو ہلاک کرنے کی اجازت طلب کی لیکن آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اگر بنوثقیف ایمان نہیں لائے تو عین ممکن ہے ان کی اولاد یہ شرف حاصل کرے‘‘ ۔ (ابن الجوزی: الوفاء ۱:۲۱۱ تا ۲۱۴)
آپ ﷺ کا یہ ارشاد گویا اس قوم کے حق میں دعائے خیر تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا پہلے حضرت عروہ بن مسعود ثقفی نے اسلام قبول کیا تو انھیں کافروں نے شہید کردیا ۔ اس پر ردعمل ہوا اور سنہ ۹ ہجری میں پوری قوم بنوثقیف بہ رضا و رغبت دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی اور یوں آپ ﷺ کی دعاء قبولیت مجسم ہوکر سامنے آگئی ۔

حضرت طفیل بن عمرو دوسی قبیلۂ دوس کے سردار ہیں، مشرف باسلام ہوکر اپنی قوم میں دعوت اسلام کی اجازت کے ساتھ واپس ہوئے۔ انھوں نے تبلیغ دین کا سلسلہ جاری رکھا ، مگر ان کی قوم ذرا بھی متاثر نہ ہوئی ۔ اس پر وہ خدمت نبویؐ میں حاضر ہوئے اور درخواست کی ! یا رسول اﷲ ! ﷺ قوم دوس کے حق میں بددعاء فرمائیے ، مگر آپ ؐ نے پیغمبرانہ عظمت کے ساتھ فرمایا : اے اﷲ ! بنو دوس کو ہدایت نصیب فرما اور انھیں یہاں مسلمان بناکر لا ‘‘ ۔ چنانچہ آپؐ کی یہ دعاء قبول ہوئی اور جب حضرت طفیل واپس گئے ، تو ان کی پوری قوم مشرف باسلام ہوگئی ۔ (البخاری)
غزوہ احد میں مسلمانوں کو اور خود نبی اکرم ﷺکو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، دندانِ مبارک شہید ہوئے ، چہرہ مبارک لہولہان ہوگیا۔ آپ ﷺکی یہ تکلیف دیکھ کر صحابہؓ نے درخواست کی کہ آپ کفار کے حق میں بددعاء فرمایئے آپؐ نے فرمایا : ’’اے اﷲ ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما ، کیونکہ وہ ( میرا مرتبہ) نہیں جانتے‘‘۔ (مسلم ۳:۱۴۱۷)

چنانچہ یہ دعاء قبول ہوئی اور غزوۂ اُحد میں مدینہ منورہ پر حملہ کے لئے آنے والے بیشتر قریشی سردار فتح مکہ سے پہلے یا اس موقعہ پر مشرف باسلام ہوگئے ۔
ایک مرتبہ عہد نبویؐ میں خشک سالی کی سی حالت پیدا ہوگئی ، چنانچہ ایک دن آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرمارہے تھے تو ایک اعرابی آئے اور کہنے لگے : اے اﷲ کے رسول! ہمارے مویشی ہلاک ہوگئے اور راستے بند ہوگئے ، ہمارے لئے باران رحمت کی دعاء فرمائیے ’آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ اُٹھاکر دعاء مانگی ۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت آسمان بالکل صاف تھا ۔ واﷲِ آپ نے ابھی ہاتھ نیچے بھی نہیں کئے تھے کہ آسمان کے ایک گوشہ سے بادل نمودار ہوئے اور پورے آسمان پر پھیل گئے ، پھر چھ دن تک سورج نظر نہیں آیا ، بارش کا سلسلہ دراز ہوگیا اور پورا ہفتہ بارش ہوتی رہی ۔ اگلے جمعہ کو پھر آپ ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ پھر وہی اعرابی (یا کوئی اور ) کہنے لگے: یا رسول اﷲ ! ’’ہمارے مویشی ہلاک ہوگئے اور راستے بند ہوگئے، خدارا دعاء کیجئے کہ بارش ختم ہوجائے۔ آپ ﷺ نے ہاتھ اُٹھاکر دعاء مانگی اور فرمایا : الٰہی (یہ بادل) گردونواح پر برسے ، ہم پر نہ برسے۔
کسرائے ایران نے نہ صرف مکتوب نبوی ﷺکی توہین کی تھی ، بلکہ اس نے اپنے گورنر یمن باذان کو حکم دیا تھا کہ وہ نعوذباﷲ حضور اکرم ﷺ کو گرفتار کرے ۔ اس کی اطلاع پر آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اے اﷲ جس طرح کسریٰ نے میرے خط کے ٹکڑے ٹکڑے کئے تو اسی طرح کسری کی سلطنت پارہ پارہ کردے‘‘ ۔ (البخاری کتاب الجہاد ، باب دعوۃ الیھود والنصاری) چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں اس کے نتائج ظاہر ہوئے اور سلطنت کسریٰ اسلامی قلمرو میں شامل کرلی گئی ۔ آخری دنوں میں یہ حال ہوگیا تھا کہ تخت کا کوئی وارث نہیں ملتا تھا اور آخری حکمراں کسری یزدگرد خلافت عثمانی میں ایک کسان کے ہاتھوں مارا گیا ۔
ان اجتماعی دعاؤں کے علاوہ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے مختلف صحابہ کرام کے لئے بھی خیر و برکت اور دیگر مقاصد میں کامیابی کے لئے جو دعائیں کیں وہ سب پوری طرح قبول ہوئیں۔
ایک صحابی حضرت ضمرہ بن ثعلبہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے اور درخواست کی یا رسول اﷲ ﷺ میرے لئے شہادت کی دعاء فرمائیں۔ آپ ﷺنے فرمایا : ’’اے اﷲ ! میں مشرکین پر ابن ثعلبہ کا خون حرام کرتا ہوں ‘‘۔ (الاصابہ ، ۲:۲۰۳ بحوالہ الطبرانی) چنانچہ حافط ابن حجر عسقلانی اور دوسرے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ یہ صحابی بے دھڑک دشمنوں کی صفوں میں جاتے اور پھر صحیح سلامت باہر نکل آتے ۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے بارک ﷲ لک (اﷲ تجھے برکت دے) فرمایا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر میں پتھر بھی اُٹھا لاتا ہوں تو اس سے بھی مجھے توقع ہوتی ہے کہ یہ سونا اور چاندی ( کی طرح فائدہ مند) ہوجائیگا۔(البخاری)
ایک مرتبہ حضرت ابوطلحہ کا ایک بیٹا انتقال کرگیا ، اسی رات وہ سفر سے واپس لوٹے تھے ، ان کی اہلیہ نے اس خیال سے کہ ان کے خاوند کو پریشانی ہوگی بتانا مناسب نہ سمجھا، پھر رات کو خاوند کی بات بھی مانی ، صبح انھیں بچے کے فوت ہونے کے متعلق بتایا گیا ۔ آپ ﷺ کو پتہ چلا تو آپ ﷺ نے اس جوڑے کے لئے رات کے عمل میں خیر و برکت کی دعاء کی ۔ ایک انصاری کہتے ہیں کہ میں نے ابوطلحہؓ کی نو اولادیں دیکھی ہیں اور سب کے سب قرآن کی حافظ تھیں۔ (البخاری کتاب الجنائز) اس قسم کی بے شمار دعائیں احادیث میں منقول ہیں جن سے آپ ﷺ کے مستجاب الدعاء ہونے کا اعجاز ظاہر ہوتا ہے ۔