نجیب احمد کیس ۔لاپتہ طالب علم کی والد کو رپورٹ حوالے کرنے سی بی ائی کو ہدایت

,

   

نجیب احمد کی والدہ نے دعوی کیاکہ سی بی ائی نے 201دستاویزات اور بیانات کا ذکر کیا‘ مگر اس میں سے کچھ بھی ان کے حوالے نہیں کیا۔

نئی دہلی۔ پیر کے روز دہلی کی ایک عدالت نے سی بی ائی کوہدایت دی کہ وہ جے این یو کے لاپتہ طالب علم نجیب احمد معاملے میں تمام دستاویزات او رگواہوں کے بیان اندرون دوہفتہ مذکورہ طالب علم کی والدہ کو فراہم کرے ۔

چیف میٹرو پولٹین مجسٹریٹ نوین کمار کشیاپ نے احمد کی والد فاطمہ نفیس کے عدالت سے رجوع ہوکر اکٹوبر 2018میں کیس بند کرنے سے قبل ایجنسی کی جانب سے دستاویزات انہیں فراہم نہ کرنے کے استفسار کے بعد یہ احکامات جاری کئے ہیں۔

انہوں نے دعوی کیاکہ سی بی ائی نے 201دستاویزات اور بیانا ت کا ذکر ہے جس میں سے ایک بھی ان کے حوالے نہیں کیاگیا۔

سی بی ائی کے وکیل نے اس با ت پر زوردیا کہ کرئمنل طرز عمل کے کوڈ کے تحت ایسا لازمی نہیں ہے کہ احتجاجی پٹیشن داخل کی جائے او راسی کے ساتھ دستاویزات فراہم کئے جائیں۔۔

تاہم عدالت نے مانا کہ ’’مذکورہ قانون منسوخی اور کیس بند کرنے پر مشتمل رپورٹ کے پیش نظر منشاء کے مطابق احتجاجی پٹیشن داخل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

موجود ہ معاملے میں یہ صاف ہے کہ شکایت کردہ احتجاجی پٹیشن داخل کرنا چاہتا ہے‘‘ ۔ عدالت نے مزیدکہاکہ ’’ اس کے علاوہ یہ نصف نفرت پر مشتمل پیشکش نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ احتجاجی درخواست پیش کرنے کے لئے شکایت کردہ کو بااثر موقع فراہم کیاجارہا ہے ۔

اس کے مطابق سی بی ائی کو ہدایت دی جاتی ہے وہ شکایت کردہ کو اس طرح کی تمام گواہوں کے بیانات اور ساتھ میں دستاویزات جس کا ذکر کیاگیا ہے

جو معاملہ کو بند کرنے کی رپورٹ کے ساتھ پیش کی گئی ہیں فراہم کئے جائیں‘‘۔

مذکورہ عدالت نے معاملے کی اگلی سنوائی کے لئے7مئی کی تاریخ مقررکی ہے۔اس سے قبل دہلی ہائی کورڈ نے بھی اس طرح کا بات اس وقت کہی تھی جب ایجنسی نے احمد کی گمشدگی میں تحقیقات ’’ تمام زایوں سے ‘‘ مکمل کرنے کا دعوی کیاتھا جو بے اثررہی ۔

احمد جے این یو کا ماسٹر س کی تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم تھا جو 15اکٹوبر2016سے لاپتہ ہے۔ اے بی وی پی سے وابستہ طلبہ کے گروپ کے ساتھ مبینہ مارپیٹ کے بعد دوسرے دن انہیں اٹورکشہ میں جاتے ہوئے دیکھا گیاتھا ۔

اس کے پیش نظر تمام چھین بین ٹھنڈی رہی ۔ مقامی پولیس سے دہلی پولیس کرائم برانچ کو کیس منتقل کیاگیا اور بعد میں سی بی ائی کو جانچ کی ذمہ داری تفویض کی گئی مگر معاملہ اب تک حل نہیں ہوسکا۔