نماز باجماعت اور سلف صالحین کا اہتمام

   

انسان کی تخلیق، انبیاء کرام کی بعثت اور کتب سماویہ کے نزول کا مقصد انسان کو اس کے حقیقی خالق و مالک سے جوڑنا ہے۔ خدا اور بندے کا تعلق اور جذب انجذاب ہی مقصود تخلیق ہے اور فلسفہ حیات و ممات ہے۔ کس قدر تعجب خیز ہے یہ بات کہ خدا کامل ہے اور بندہ ناقص ہے، خدا قادر مطلق ہے اور بندہ مجبور و کمزور ہے، خدا باقی ہے اور بندہ فانی ہے، خدا کل جہانوں کا رب ہے اور بندہ ایک ذرۂ بے مقدار ہے۔ اس کی متنوع مخلوقات میں انسان کی حیثیت ایک پن کے پوائنٹ کے برابر نہیں، اس کے باوجود کامل و ناقص کی یکجائی اور فرش و خاک پر رہنے والے انسان کا عرش والے رب العالمین سے ربط و تعلق قائم کرنا مقام حیرت ہے۔
نماز درحقیقت خدا و بندے، خالق و مخلوق، عابد و معبود، ساجد و مسجود، ذاکر و مذکور کے راز و نیاز، مناجات، سرگوشی، سکون و راحت، انس و الفت کا ذریعہ ہے، جس میں بندہ مؤمن مکمل عجز و نیاز کا پیکر بن کر اپنے خالق و مالک کے دربار عالی میں مراسم عبادت و اطاعت بجالاتا ہے۔ مختلف حیثیتوں میں قیام و قعود، رکوع و سجود میں اپنی عجز و انکساری اور خدا کی کبریائی وغیرہ کا اظہار کرتا ہے، حمد و ثناء کرتا ہے، تسبیح و تحمید، تکبیر و تحلیل کرتا ہے۔ دنیا سے بے رغبت ہوکر ہمہ تن اپنے حقیق مولیٰ کے حضور میں ہوتا ہے۔ اس کے کلام مجید کی تلاوت کرتا ہے اور تعریف و توصیف کرتا ہے۔ اس سے مدد مانگتا ہے، صراط مستقیم کی ہدایت کی التجائیں کرتا ہے۔ اس کی ناراضگی اور غضب سے پناہ مانگتا ہے۔ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں، جو خدائے ذوالجلال کو بہت عزیز و محبوب ہوتے ہیں۔ بندے کی ان حرکات و سکنات، جذبات و احساسات، طاعات و عبادات بارگاہ الہی میں نہایت قبولیت کے درجہ میں ہوتے ہیں۔ غور کیجئے کہ یہ ادائیں، یہ جذبات، یہ کیفیات، یہ آہیں، یہ مراسم طاعات اس قدر دربار الہی میں محبوب و مقبول ہیں کہ خدائے ذوالجلال نے اس کو اپنے محبوب وجہ تخلیق کائنات خاتم النبیین ﷺسے شب معراج کے موقع پر رات دن میں پچاس مرتبہ مقرر فرمایا تھا، تاکہ بندہ مؤمن شب و روز پچاس مرتبہ دربار الہی میں پیکر عجز و نیاز بن کر یہ مراسم و ارکان عبادت بجالائے۔ نبی اکرم ﷺ  نے ازراہ تخفیف پانچ نمازوں کی درخواست کی اور وہ مقبول ہوئی، لیکن ان پانچ نمازوں میں پچاس نمازوں کے انوار و تجلیات، الطاف و عنایات اور اجر و ثواب ودیعت کردیئے گئے ہیں۔ نبی اکرم ﷺکا ارشاد ہے کہ ’’نماز مؤمنین کی معراج ہے‘‘۔
یہ محبت و عنایت کے اسرار صرف امت محمدیہ کے کسی مخصوص فرد کے ساتھ متعین نہیں، بلکہ اس امت کا ہر فرد و رکن ان خصوصی الطاف کا حق دار ہے اور اللہ تعالی کو یہ بات بہت پسند ہے کہ اُمت مسلمہ کے یہ افراد اجتماعی طورپر ان مخصوص ارکان عبادت کو بجالائیں اور یہ اجتماعیت مطلوب و محبوب اور افضل و اعلی ہے۔ اسی لئے حکم الہی ہے: ’’رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘ یعنی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرو۔
حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ’’آدمی کا جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا اپنے گھر میں یا بازار میں تنہا نماز ادا کرنے سے پچیس گنا زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ اس لئے کہ جب وہ وضوء کرتا ہے، اچھی طرح وضوء کرتا ہے، پھر مسجد کے لئے نکلتا ہے، وہ کسی دوسرے مقصد کے لئے نہیں نکلتا، وہ کوئی قدم نہیں ڈالتا مگر اس کے ایک قدم کے عوض اس کے لئے ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے اور اس سے ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے اور جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے جب تک وہ اپنے جائے نماز پر ہوتا ہے، اس کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے ہیں اور تم میں سے کوئی نماز کے انتظار میں ہوتا ہے تو وہ درحقیقت نماز میں ہوتا ہے‘‘۔ (بخاری)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ’’جماعت کے ساتھ ادا کی گئی نماز تنہا پڑھنے والے کی نماز سے ۲۷ درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے‘‘۔ (مسلم)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد سے بہت دور رہتا تھا۔ اس سے بڑھ کر دور رہنے والا میرے علم میں کوئی نہیں تھا۔ اس شخص کی کوئی نماز جماعت سے ترک نہیں ہوتی تھی۔ اس سے کہا گیا: ’’تم سواری کے لئے گدھا کیوں نہیں خرید لیتے کہ تم رات کی تاریکی میں، دن کی دھوپ میں اس پر سوار ہوسکتے ہو‘‘۔ انھوں نے جواب دیا: ’مجھے اس بات کی خوشی نہیں ہوگی کہ میرا گھر مسجد کے قریب ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا مسجد کو چل کر آنا اور میرا اپنے اہل کی طرف لوٹ کر جانا دونوں اجر و ثواب کا باعث ہوں‘‘۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’اللہ تعالی ان تمام کو تمہارے لئے جمع کردیا ہے‘‘۔
(صحیح مسلم)
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’جس نے عشاء کی نماز جماعت سے ادا کی، گویا اس نے آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز جماعت سے ادا کی گویا اس نے پوری رات نماز پڑھی‘‘۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ’’اگر لوگ جان لیتے اذان اور صف اول میں کیا اجر و ثواب ہے تو اس کے لئے ان کو قرعہ ڈالنے کی نوبت آئے تو وہ ضرور قرعہ ڈالیں گے اور اگر وہ جانتے کہ نماز عشاء اور فجر میں کیا ہے تو وہ ضرور سرین کے بل گھسیٹتے ہوئے آئیں گے‘‘۔ (صحیح البخاری)
حضرت عمر بن ابن مکتوم سے روایت ہے کہ میں رسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ! میں نابینا ہوں، میرا گھر دور ہے، میری رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہے، کیا میرے لئے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے؟‘‘۔ فرمایا: ’’کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟‘‘۔ میں نے عرض کیا: ’’ہاں!‘‘۔ فرمایا: ’’تمہارے لئے میں کوئی رخصت نہیں پاتا‘‘۔ (ابوداؤد)
اسلاف کرام کی زندگیوں میں ہمارے لئے نمونے ہیں کہ وہ کس قدر نماز باجماعت کا اہتمام کرتے تھے۔ آندھی، طوفان آئے، کہرام مچے، پہاڑ ٹوٹے، وہ کسی صورت میں جماعت ترک نہیں کرتے تھے۔ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’بیس سال گزر گئے ہیں مؤذن نے اذان نہیں دی، مگر یہ کہ میں اس وقت مسجد میں رہا ہوں‘‘۔ مزید فرماتے ہیں کہ ’’پچاس سال ہوئے تکبیر تحریمہ فوت نہیں ہوئی، (پہلی صف کا اہتمام کرنے کی بناء) میں نے پچاس سال سے کسی مصلی کی گدی کو نہیں دیکھا‘‘۔ حضرت وکیع بن جراح بیان کرتے ہیں کہ حضرت اعمش رحمۃ اللہ علیہ کو تقریباً ستر سال ہوئے کہ ان کی تکبیر تحریمہ نہیں چھوٹی۔ حضرت ابن سماعہؒ کا بیان ہے کہ چالیس برس ہوگئے کہ مجھ سے تکبیرۂ تحریمہ فوت نہیں ہوئی سوائے ایک دن جس میں میری والدہ فوت ہوئیں تھیں۔ حضرت سفیان بن عینیہؒ فرماتے ہیں ، اقامت سے قبل مسجد پہنچنا نماز کی توقیر و احترام میں شامل ہے۔ حضرت ربیع بن خیشم کا فالج کی وجہ سے ایک حصہ شل ہوگیا تھا ، تو وہ نماز کو دو آدمیوں کے سہارے آیا کرتے تھے ، ان سے کہا گیا ، اے ابومحمد! تم معذور ہو تمہارے لئے گھر میں نماز پڑھنے کی رخصت ہے ، وہ جواب دیتے ، حکم ایسا ہی ہے جیسا تم کہتے ہو مگر میں مؤذن کی ندا کو سنتا ہوں جو کوئی اذان کا (عملی )جواب دے سکتا ہو اگر چہ تھکا ماندہ بوجھل یا سرین کے بل ہو اس کو دینا چاہئے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن آدم کے کان میں پگلی ہوئی سیس بھردی جائے اس کے لئے بہتر ہے اس بات سے کہ وہ اذان سنے اور اس کاجواب نہ دے ( یعنی نماز باجماعت ادا نہ کرے)۔
(احیاء العلوم)