وزیراعظم کا قوم سے 7 ویں مرتبہ خطاب

   

ہندوستان میں کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے ویکسین کی تیاری سے متعلق وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ ہمارے سائنسداں اس سلسلہ میں دن رات سخت محنت کررہے ہیں ویکسین کی تیاری کے بعد اسے ملک کے ہر شہری کو مرحلہ وار طور پر دیا جائے گا ۔ ویکسین تیار ہونے تک عوام کو کورونا سے بچنے کے لیے احتیاط کرنی ہوگی ۔ دوائی نہیں تو لاپرواہی بھی نہیں کے نعرے کے ساتھ مودی نے کورونا پر اب تک 7 مرتبہ قوم سے خطاب کیا لیکن ہر مرتبہ ان کا خطاب معاشی طور پر پریشان عوام کے لیے مایوس کن تھا ۔ وزیراعظم مودی کے خطاب میں بیروزگاری کا کوئی ذکر تھا اور نہ ہی تباہ ہورہی معیشت کے بارے میں انہوں نے اپنی حکومت کے اقدامات کا ذکر کیا ۔ اس طرح سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ آخر ایک حکمراں کو بار بار ٹی وی پر آکر قوم سے خطاب کرنے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے ۔ کسی ٹھوس پالیسی اور مستقبل کے لائحہ عمل کے بغیر قوم سے خطاب کا کیا مطلب ہے ۔ ہندوستان کی معیشت بری طرح گھٹ رہی ہے ۔ 2014 سے قبل ہندوستان کو دنیا کے طاقتور معاشی ملکوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا تھا ۔ خاص کر ایشیاء پیسفک کے چار بڑے ممالک میں شامل ہونے کا فخر تھا ، لیکن اب اسے معاشی طور پر طاقتور بڑے ممالک کی صف سے باہر کردیا گیا ہے ۔ اس تعلق سے وزیراعظم کو کسی قسم کی فکر نہیں ہے ۔ ان کی تقریریں بے معنی ہوتی جارہی ہیں ۔ اپوزیشن پارٹیوں نے خاص کر کانگریس کے وزیراعظم کے قوم سے خطاب کو کھوکھلا اور پالیسیوں سے عاری قرار دیا ہے ۔

اس مرتبہ وزیراعظم کا یہ خطاب صرف 12 منٹ کا تھا جس میں انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ اس تہوار کے موسم میں کورونا سے بچنے کے لیے احتیاط کریں ۔ وزیراعظم کی تقریر صرف کورونا تک ہی محدود تھی کیوں کہ بہار کے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر انہوں نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے بچنے کی کوشش کی ۔ کورونا سے شہریوں کو بچانے کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے انہوں نے کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔ کورونا وائرس کے باعث خطے میں سب سے زیادہ ہندوستان کی ترقی کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے ۔ اس خطہ میں یا برصغیر میں ہندوستان کی آبادی دیگر ممالک کے اعتبار سے زیادہ ہے ۔ ہندوستان اس معاملہ میں چین کا مقابلہ کرسکتا ہے لیکن معاشی محاذ پر وہ چین کی برابری کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ وزیراعظم کے قوم سے خطاب سے قبل یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ اس مرتبہ قوم کو کچھ راحت کی بات سنائیں گے ۔ معیشت کو بہتر بنانے کے اقدامات کا اعلان کریں گے ۔ بے روزگاری کم کرنے پر توجہ دیں گے اور لداخ میں چین کی در اندازی کا تذکرہ کریں گے اور غریبوں کو راشن تقسیم کرنے کی اسکیم کی مدت میں توسیع دینے کا ذکر کریں گے لیکن وزیراعظم کی تقریر صرف کورونا وائرس سے خود کو بچائے رکھنے کے لیے عوام کو مشورہ دینے تک ہی محدود تھی ۔ عوام گذشتہ ماہ مارچ سے ماسک لگانے اور دو گز کی دوری اختیار کرنے کے مشورے ہی سن رہے ہیں ۔ بلا شبہ کورونا سے بچنے کے لیے احتیاط لازمی ہے اور احتیاط کے ساتھ ماسک لگانا اور ہجوم میں جانے سے گریز کرنا ضروری ہے ۔ موسم سرما میں کورونا کے خطرات میں اضافہ کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔

اس لیے عوام کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ لاک ڈاؤن ختم ہوگیا ہے لیکن وائرس برقرار ہے ۔ اس لیے وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے پہلے سے زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے ۔ اگر وزیراعظم ان زریں مشوروں کے ساتھ ملک کے بیروزگار نوجوانوں کے حق میں کچھ مثبت اقدامات کرنے ، معاشی سطح پر ٹھوس قدم اٹھانے جیسے اعلان کرتے تو مناسب ہوتا لیکن انہوں نے اپنے خطاب کو محدود کر کے ایک اور خطاب کی گنجائش برقرار رکھی ہے ۔ حکومت کے کان کھینچنے کی صلاحیت سے محروم اپوزیشن کو صرف کرسی کی فکر ہے ۔ وہ عوامی مسائل کو اپنے احتجاج کا موضوع بنانے سے قاصر ہے ۔ اس لیے حکومت بھی لاپرواہ ہونے کا اندھا دھند مظاہرہ کررہی ہے ۔ کورونا کی دوائی نہیں تو لاپرواہی نہیں کا نعرہ دینے والے وزیراعظم نے عوام کے حقیقی مسائل پر یکسر آنکھیں بند کرلی ہیں ۔۔