وطن کو بیچنے والے ثبوت مانگتے ہیں

,

   

حامد انصاری … بی جے پی کو برداشت کیوں نہیں؟
مسلم آبادی کے نام پر نفرت کا پرچار

رشیدالدین
جھوٹ کو اتنا کہو کہ لوگ سچ ماننے لگ جائیں۔ بی جے پی ان دنوں اسی فارمولہ پر عمل پیرا ہے اور جھوٹ کے سہارے عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹانے میں وقتی طور پر کامیاب رہی ہے۔ اہم شخصیتوں کی کردار کشی بی جے پی قیادت کا وطیرہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی حلقوں میں بی جے پی کو ’’بھارتیہ جھوٹا پارٹی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کسی بھی ثبوت کے بغیر سنگین الزامات عائد کرنا قانونی جرم اور ہتک عزت قانون کے تحت آتا ہے لیکن جب قانون اور قانون کے محافظ برسر اقتدار پارٹی کی تابعداری کرنے لگیں تو کارروائی کس پر اور کون کرے گا۔ بی جے پی کے پاس دستوری عہدوں کا پاس و لحاظ اور احترام نہیں ہے ۔ دستوری عہدوں پر فائز شخصیتوں کا ہمیشہ احترام کیا گیا ، بھلے وہ عہدہ پرر ہیں یا سبکدوش ہوجائیں۔ اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی گئی کہ دستوری عہدوں پر فائز افراد سابق میں کس پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ سابق نائب صدر جمہوریہ ڈاکٹر حامد انصاری سے پتہ نہیں بی جے پی کو کیا تکلیف ہے۔ عہدہ سے سبکدوشی کے بعد وہ سرگرم سیاست میں شامل نہیں ہوئے، پھر بھی وقفہ وقفہ سے انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ڈاکٹر حامد انصاری کی حب الوطنی شبہ سے بالاتر ہے اور ان کی دیش بھکتی پر سوال اٹھانا خود ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ جن کے آبا و اجداد جدوجہد آزادی اور خلافت تحریک سے وابستہ رہے اور ان کی قربانیاں ہیں، ایسے خاندان کی حب الوطنی پر سوال کرنے والوں پر شک ہوتا ہے کہ وہ ملک کے وفادار ہیں یا دشمن ۔ ملک کیلئے قربانی دینے والوں پر سوال اٹھانے والوں کے آبا و اجداد انگریزوں کے غلام رہ چکے ہیں اور انگریزوں کیلئے مجاہدین آزادی کی جاسوسی کرچکے ہیں۔ جیل سے رہائی کیلئے انگریزوں سے تحریری معذرت کرنے والوں کے جانشین آج حامد انصاری کی حب الوطنی پر شبہ کر رہے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے قائدین بشمول موہن بھاگوت اور نریندر مودی کی حب الوطنی سے زیادہ حامد انصاری ملک کے وفادار ہیں۔ ظاہر ہے کہ انسان اسی چیز کا دشمن ہوتا ہے جس سے وہ محروم ہو۔ حامد انصاری نے نائب صدر جمہوریہ سے قبل مختلف ممالک میں ہندوستانی سفیر کے طور پر ملک کے مفادات کی نگہبانی کی اور اقوام متحدہ میں ہندوستان کی بھرپور ترجمانی اور دفاع کیا۔ صدر جمہوریہ اور نائب صدر کے الیکشن سے عین قبل حامد انصاری کو تنازعہ میں گھسیٹنے کی کوشش کی گئی ۔ حامد انصاری تو ایک بہانہ ہیں جبکہ اصل نشانہ تو کانگریس پارٹی ہے۔ بی جے پی نے الزام عائد کیا کہ حامد انصاری نے ایک پاکستانی صحافی کو پانچ مرتبہ ہندوستان مدعو کیا اور ملک کے اہم راز اور معلومات فراہم کیں جسے صحافی نے ISI تک پہنچایا۔ الزام خود اس طرح بھونڈا اور من گھڑت ہے کہ جس کی سچائی اور صداقت پر کوئی بھی اعتبار نہیں کرسکتا۔ پاکستانی صحافی نصرت مرزا کا ایک ویڈیو منظر عام پر آیا جس میں صحافی نے ہندوستان کے دورہ کے موقع پر ایک سمینار میں شرکت کا حوالہ دیا جس کو حامد انصاری نے مخاطب کیا تھا۔ پاکستانی صحافی نے 2005-11 ء کے درمیان ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کیا لیکن حامد انصاری سے ملاقات کی بات نہیں کہی لیکن بی جے پی نے مرچ مسالہ لگاکر سابق نائب صدر جمہوریہ پر ملک کے اہم راز حوالے کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ جہاں تک سمینار کے مدعوئین کو طئے کرنے کا معاملہ ہے ، اس کا فیصلہ منتظمین کرتے ہیں اور مذکورہ سمینار سپریم کورٹ بار کونسل کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا۔ حامد انصاری نے واضح کردیا کہ وہ نصرت مرزا کو جانتے تک نہیں، ملاقات اور مدعو کرنا تو دور کی بات ہے۔ انہوں نے بی جے پی پر جھوٹ پھیلانے کا الزام لگایا ۔ بی جے پی قیادت کی بے شرمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس ویڈیو میں ملاقات کا تذکرہ تک نہیں ، اس کو بنیاد بناکر من گھڑت کہانی تیار کی گئی ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب حامد انصاری بی جے پی کے نشانہ پر رہے۔ اس سے قبل ملک میں مذہبی عدم رواداری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تبصرہ کے بعد بی جے پی قیادت اور گودی میڈیا حامد انصاری پر ٹوٹ پڑا تھا۔ حامد انصاری نے کہا تھا کہ ملک میں اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ صدر جمہوریہ کے عہدہ پر تقررکے معاملہ میں مودی حکومت نے حامد انصاری کے ساتھ نہ صرف ناانصافی بلکہ احسان فراموشی کا معاملہ کیا جبکہ اس عہدہ کیلئے ان سے زیادہ بہتر اور موزوں کوئی اور شخصیت نہیں تھی۔ حامد انصاری کو محض اس لئے بار بار نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی اصولوں پر سمجھوتہ اور ایمان کا سودا نہیں کیا ۔ بی جے پی کو عارف محمد خاں اور مختار عباس نقوی جیسے مسلمانوں کی ضرورت ہے جو اقتدار اور کرسی کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ حامد انصاری کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے والے شائد بھول گئے کہ راجیہ سبھا میں حامد انصاری کو وداع کرتے ہوئے نریندر مودی نے ملک کیلئے ان کی اور آبا و اجداد کی خدمات کا اعتراف کیا تھا۔ بی جے پی کی عادت بن چکی ہے کہ مسلمانوں کی ممتاز شخصیتوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان کی کردار کشی کی جائے تاکہ قوم کا اپنی قیادت پر اعتماد باقی نہ رہے۔ بی جے پی قائدین کو یہ بات بھولنی نہیں چاہئے کہ ملک کے دفاعی راز اور دیگر تاہم معلومات کو دشمن ممالک کے حوالے کرنے کے معاملات میں آج تک کوئی مسلمان ملوث نہیں رہا لیکن گودی میڈیا نے ملک کے راز فروخت کرنے والوں کے ناموں کو ہمیشہ مخفی رکھا ہے۔ اگر مسلمان کا نام ہوتا تو آسمان سر پر اٹھالیا جاتا ۔ ملک کے راز فروخت کرنے والے تو کوئی اور ہیں لیکن مسلمانوں پر دیش دروہی کا الزام برقرار ہے ۔
حامد انصاری کی وضاحت کے باوجود بی جے پی کی مہم کا جاری رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کو ملک کے سابق نائب صدر جمہوریہ پر نہیں بلکہ پاکستانی صحافی پر بھروسہ ہے ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ صحافی نے حامد انصاری سے ملاقات کی بات کہی ہے تو پھر پاکستان کی جانب سے ہندوستان کے خلاف عائد کردہ تمام الزامات کو بھی قبول کرنا چاہئے ۔ مذہبی عدم رواداری ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ، مسلمانوں پر مظالم اور اظہار خیال کی آزادی سلب کرنے سے متعلق پاکستان کے الزامات کو قبول کریں۔ بجائے اس کے حکومت سختی کے ساتھ تردید کرتے ہوئے اسے ملک کا داخلی معاملہ قرار دیتی ہے۔ حکومت کے موقف سے ہم بھی متفق ہیں اور پاکستان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہندوستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرے۔ جو الزامات ہندوستان پر عائد کئے جارہے ہیں، وہ تمام پاکستان کے لئے صادق آتے ہیں۔ اپنے گھر کی فکر کرنے کے بجائے دوسروں کے گھر پر پتھر مارنے کی کوشش ٹھیک نہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستانی صحافی کو استعمال کیا گیا تاکہ حامد انصاری کو نشانہ بنایا جائے ۔ حکومت بی جے پی کی ہے اور الزام تراشی سے قبل سرکاری ریکارڈ کی جانچ کرنی چاہئے تھی تاکہ اس بات کا پتہ چلایا جاسکے کہ پاکستانی صحافی کو کس نے مدعو کیا اور اس نے کن کن شخصیتوں سے ملاقات کی۔ حقائق اور دستاویزات اپنے قبضہ میں رکھتے ہوئے برسر اقتدار پارٹی کا دستوری عہدہ پر فائز شخصیت کی کردار کشی کرنا افسوسناک ہے ۔ دوسری طرف ملک میں آبادی میں تیزی سے اضافہ کو بنیاد بناکر پھر ایک بار مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی پرچار شروع ہوچکا ہے ۔ ہندوستان کی آبادی کے چین کی آبادی سے تجاوز کرنے کی رپورٹ کے بعد ہندوتوا طاقتوں نے پھر ایک مرتبہ مسلمانوں پر الزام عائد کیا کہ وہ آبادی میں اضافہ کے ذریعہ ملک پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ موہن بھاگوت اور یوگی ادتیہ ناتھ نے توقع کے عین مطابق زہر اگلتے ہوئے آبادی میں اضافہ کو مذہب سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔ اس مسئلہ پر کوئی دانشور اظہار خیال کرتا تو اس کی بات سمجھ میں آسکتی تھی لیکن موہن بھاگوت اور یوگی ادتیہ ناتھ کے بیانات نفرت کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ آبادی میں اضافہ کے نام پر دیگر مذاہب کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ وہ بی جے پی کے ساتھ جڑے رہیں۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے تحقیق کی بنیاد پر انکشاف کیا کہ ملک کے 47 فیصد مسلمان آبادی فیملی پلاننگ پر عمل کرتی ہے جبکہ ہندوؤں میں 42 فیصد ایسے ہیں جو نس بندی کے طریقوں پر عمل نہیں کرتے۔ مسلمانوں کی 53 فیصد آبادی فیملی پلاننگ پر عمل نہیں کرتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 100 کروڑ کی آبادی میں 42 فیصد اور 20 کروڑ میں 53 فیصد کا فرق کافی زیادہ ہے۔ تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ آبادی پر قابو پانے کے طریقہ کار سے انکار کرنے والے ہندو اور مسلمان تقریباً برابر ہیں۔ ملک کے قائدین کو آبادی پر کنٹرول کے معاملہ میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں پارلیمنٹ میں کئے گئے سوالات میں صرف 0.15 فیصد سوالات فیملی پلاننگ سے متعلق تھے۔ مسلمانوں کی آبادی کا خوف دلاکر بی جے پی ہندو ووٹ بینک مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ حامد انصاری کی حب الوطنی پر سوال کیلئے معراج فیض آبادی کا یہ شعر مناسب جواب ہوگا ؎
ہم اہل دل سے ہماری وطن پرستی کا
وطن کو بیچنے والے ثبوت مانگتے ہیں