وطن کو چھوڑ کر جانے کا نئیں

   

سیاہ قوانین … رسی جل گئی بل نہیں گیا
دہلی فساد … مسلم قیادت سے مایوسی

رشیدالدین
نریندر مودی حکومت کے سیاہ قوانین کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاج اور دنیا بھر سے اٹھنے والی مخالف آوازوں نے آخرکار مرکز کے ہوش اڑادیئے ہیں۔ دنیا بھر میں ہوئی بدنامی کے بعد حکومت کے جارحانہ تیور نرم پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عوامی ناراضگی کے چلتے سیاہ قوانین سے دستبرداری کے بجائے مودی اور امیت شاہ دفاعی موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ ’’رسی تمام جل گئی پر بل نہیں گیا‘‘ کے مصداق امیت شاہ نے راجیہ سبھا کے پلیٹ فارم سے ملک کو سمجھانے کی کوشش کی کہ قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) ہر دس سال کی طرح مردم شماری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے دو اہم اعلانات کے ذریعہ سیاہ قوانین کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو جتانے کی کوشش کی کہ این پی آر میں معلومات کی فراہمی رضاکارانہ ہے اور تفصیلات کے ساتھ دستاویزات پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ امیت شاہ نے ایک اور اہم اعلان یہ کیا کہ کسی بھی شہری کے نام کے آگے “D” لگانے اور مشتبہ شہری قرار دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اپوزیشن کے بعض ارکان بشمول قائد اپوزیشن غلام نبی آزاد نے تیقنات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ امیت شاہ کی باتوں پر بھروسہ ایسی صورت میں کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ سیاہ قوانین پر ان کا ابتداء سے ایک ہی موقف ہوتا۔ مودی اور امیت شاہ نے ہمیشہ تضاد بیانی کی ہے۔ لہذا راجیہ سبھا کا بیان احتجاج کو کمزور کرنے اور عوام کو گمراہ کرنے کی نئی چال ہے۔ ملک بھر میں جاری عوامی احتجاج سے خائف مودی۔امیت شاہ جوڑی نے عوام کو گمراہ کرنے نیا حربہ استعمال کیا ہے ۔ این آر سی کے بارے میں گجرات کی جوڑی کے بیانات کو عوام بھولے نہیں ہیں۔ امیت شاہ نے ایک سے زائد مرتبہ اعلان کیا تھا کہ آسام کی طرز پر سارے ملک میں این آر سی نافذ کی جائے گی جبکہ مودی نے این آر سی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ دونوں میں آخر کس کی بات پر بھروسہ کیا جائے؟ این پی آر کے بارے میں تضاد بیانی جاری ہے۔ امیت شاہ بھلے ہی کچھ کہہ لیں لیکن وزارت داخلہ کی ویب سائیٹ پر لکھا ہے کہ این پی آر دراصل این آر سی کی سمت پہلا قدم ہے ۔ امیت شاہ کی زبانی بات کو قبول کیا جائے یا پھر تحریری دستاویز کو ؟ ظاہر ہے کہ دستاویز زبانی باتوں سے زیادہ قابل بھروسہ ہوگی ، جب این آر سی اور این پی آر میں کوئی ربط نہیں ہے اور این آر سی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا تو پھر سرکاری ویب سائیٹ پر این آر سی کا تذکرہ کیوں ہے۔ دراصل یکم اپریل سے این پی آر پر عمل آوری کیلئے عوام کو جھوٹی تسلی دی جارہی ہے ۔ اگر تفصیلات فراہم نہ کرنے پر D درج کرنے کی گنجائش نہیں ہے تو پھر اسے این آر پی کے رہنمایانہ خطوط سے حذف کریں۔ اس بات کی کیا گیارنٹی ہے کہ مہم کے دوران کسی کے آگے D درج نہیں ہوگا۔ جب سرکاری احکامات میں گنجائش ہے تو عہدیدار امیت شاہ کے زبانی تیقن پر نہیں بلکہ سرکاری احکام پر عمل کریں گے ۔ این پی آر اگر واقعی مردم شماری کی مہم ہے اور حکومت کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں اور عمل آوری کے درپردہ خطرناک عزائم نہیں ہیں تو پھر 2010 ء کے سوالنامہ کو اختیار کرنے میں کیا اعتراض ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ مودی حکومت نے این پی آر کے سوالنامہ میں کئی متنازعہ سوالات کو شامل کرلیا جو دراصل مخالف مسلم ایجنڈہ کا حصہ ہے۔ تفصیلات کی فراہمی جب اختیاری ہے اور کسی پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا تو پھر متنازعہ سوالنامہ سے ختم کیوں نہیں کیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ جب سوالات برقرار رکھنا ہے اور 2010 ء کا سوالنامہ قبول نہیں تو پھر حکومت کے عزائم پر شبہات پیدا ہونا فطری ہے۔ اگر امیت شاہ کی میٹھی باتوں کے جال میں پھنس کر این پی آر کا بائیکاٹ ختم کردیا جائے یا پھر احتجاج کی شدت کم کریں گے تو آگے چل کر بھول ثابت ہوگی اور پچھتانا پڑے گا ۔ اپوزیشن اور انصاف پسند طاقتوں کو اس وقت تک احتجاج جاری رکھنا ہوگا جب تک کہ حکومت این پی آر سے دستبردار نہیں ہوتی۔ 2010 ء کے سوالنامہ کے علاوہ کچھ بھی اضافہ عوام کے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔ دہلی میں گجرات ماڈل پر عمل کرتے ہوئے مخالفین نے خوف اور ڈر کا ماحول پیدا کرنے اور دہلی فسادات کو اپنے قائدین کی اشتعال انگیزی کا نتیجہ قبول کرنے سے انکار کرنے والوں پر کس طرح بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ چند بکاؤ مال قائدین اور تنظیموں کو سیاہ قوانین کے حق میں میدان میں اتارا گیا۔ گنبد اقتدار کے یہ کبوتر اور دسترخوان اقتدار کی پھینکی ہوئی یہ ہڈیاں میر جعفر اور میر صادق کی شکل میں ہر دور میں مسلمانوں میں نفاق کا بیج بونے کا کام کیا۔ عوامی ناراضگی اور احتجاج میں کمی کیلئے اس قدر محنت کے بجائے صرف یہ اعلان کردیا جائے کہ 2010 ء کے سوالنامہ پر مردم شماری ہوگی تو ملک میں امن قائم ہوجائے گا۔ مودی اور امیت شاہ خود کو پیدائشی ہندوستانی ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں جبکہ دوسروں سے باپ دادا کی پیدائش کا ثبوت مانگا جارہا ہے ۔ یہ دونوں پہلے اپنے باپ دادا کی پیدائش کا ثبوت پیش کریں ۔ امیت شاہ نے 7 پشتوں کے ہندوستان میں جنم لینے کا دعویٰ کیا ہے ۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو 7 پشت کا نہ سہی 2 پشتوں کا شجرہ پیش کریں۔ پارلیمنٹ میں امیت شاہ کو وضاحت کے لئے کس قدر محنت کرنے کے بجائے مذکورہ احکامات سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے عوام میں پھیلی بے چینی دور کرنی چاہئے ۔ صرف وضاحت پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ این پی آر پر عمل آوری کرنے والے سرکاری عہدیدار تحریری ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔

شاہین باغ جو سیاہ قوانین کے خلاف ملک گیر احتجاج کی علامت بن چکا ہے، اسے ختم کرنے کیلئے کورونا وائرس کے نام پر دہشت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کورونا وائرس جس نے دنیا کو خوف اور دہشت میں مبتلا کردیا ہے ، وہ سیاہ قوانین کی واپسی کے لئے احتجاج کرنے والی خواتین کے حوصلوں کو پست نہیں کرسکا۔ وائرس کا خوف دلانے کے باوجود خواتین مرعوب ہوئے بغیر پورے عزم کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کو شہریت دینے والا قانون قرار دیا جارہا ہے اور امیت شاہ کا دعویٰ ہے کہ اس قانون سے کسی کی شہریت کو خطرہ نہیں ہوگا۔ قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج اس لئے نہیں کہ قانون سے کسی کی شہریت کو خطرہ ہے بلکہ دستور کی خلاف ورزی پر عوام سڑکوں پر آچکے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر قانون سازی کی گئی جس میں تین پڑوسی ممالک سے آنے والے غیر مسلموں کو شہریت کی گنجائش رکھی گئی ہے ۔ اگر کوئی مسلمان ہندوستان آنا چاہے تو اس کے لئے دروازے بند ہیں۔ صدیوں سے یہ روایت رہی کہ ہندوستان نے اپنے دروازے ہر ایک کیلئے کھلے رکھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستان کے علاوہ کسی اور ملک میں بیرونی شہریوں کے لئے اس قدر فراخدلی نہیں لیکن گزشتہ 6 برسوں میں بی جے پی نے اس روایت سے انحراف کرلیا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے لئے تو ہندوستانی شہریت کے راستے بند ہیں لیکن ملک کی سلامتی کے ذمہ دار اجیت ڈوال کے فرزند شوریا ڈوال کے بزنس پارٹنر پاکستانی شہری سید علی عباس ہیں۔ شوریا ڈوال کی فینانشیل سرویسز کمپنی میں ایک سعودی اور ایک پاکستانی بطور پارٹنر شامل ہیں۔ جس ملک سے ہندوستان کی سلامتی کو خطرہ ہے ، اسی ملک کے تاجر سے قومی سلامتی مشیر کے فرزند کی دوستی باعث حیرت ہے۔ قومی سلامتی مشیر کے فرزند کو پاکستانی شہری کے ساتھ تجارت کی اجازت ہے لیکن اگر کوئی دونوں ممالک کے درمیان امن کی اپیل بھی کرتا ہے تو اسے پاکستان جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ بی جے پی آخر اجیت ڈوال کے فرزند کے مسئلہ پر خاموش کیوں ہے ۔ پاکستان سے اگر کسی کا ربط ثابت ہوجائے تو اسے دیش دروہی کہا جاتا ہے لیکن پاکستانی کے ساتھ تجارتی تعلقات کے باوجود اجیت ڈوال اور ان کے فرزند دیش پریمی ہیں۔ دوسری طرف دہلی کے فساد سے متاثرہ ہزاروں خاندان امداد کو ترس رہے ہیں۔ مسلم قیادت نے حالیہ برسوں میں کئی اہم مسائل پر مسلمانوں کو مایوس کیا ہے ۔ مسلم ارکان پارلیمنٹ حکومت سے کل جماعتی وفد کی روانگی کا مطالبہ کرنے کے بجائے اپنی قیامگاہ سے چہل قدمی کریں تو متاثرہ علاقوں تک پہنچ جائیں گے لیکن کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔ دفعہ 370 ، طلاق ثلاثہ، بابری مسجد اور دہلی فسادات پر مسلم قیادت نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی ۔ بعض رضاکارانہ تنظیموں کی جانب سے ریلیف کے کاموں کا آغاز ہوا لیکن تباہی کے اعتبار سے یہ کام ناکافی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمام تنظیمیں اور جماعتیں متحدہ طور پر ریلیف کا کام انجام دیں تاکہ متاثرین کی ضرورت کے اعتبار سے امداد فراہم کی جاسکے۔ فساد کے منظم ہونے میں کوئی دورائے نہیں لیکن مرکزی حکومت بی جے پی قائدین کو بچا رہی ہے جن کی اشتعال انگیزی کے نتیجہ میں فساد برپا ہوا ۔ 2000 سے زائد فسادی کس نے اور کہاں سے طلب کئے تھے، انہیں کس نے پناہ دی تھی ، ان تمام حقائق کو منظر عام پر لانے کیلئے سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے برسر خدمت جج کے ذریعہ تحقیقات کرائی جائیں۔ سیاہ قوانین کے پس منظر میں ڈاکٹر راحت اندوری نے کچھ یوں تبصرہ کیا۔
ہے دنیا چھوڑنا منظور لیکن
وطن کو چھوڑ کر جانے کا نئیں