وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے

   

عوامی احتجاج … حکومت کی ہٹ دھرمی
دستور پر حلف … سنگھ ایجنڈہ پر عمل
مودی کے بے طلب مشورے… اردو نظم سے نیند حرام

رشیدالدین
غیر دستوری قانون نافذ کرنے کیلئے دستور کا سہارا لے کر ریاستوں کو دھمکانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرشاد نے شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کے سلسلہ میں بعض ریاستوں کے انکار کے حوالہ سے کہا کہ مرکز کے منظورہ کسی بھی قانون پر عمل آوری کیلئے ریاستیں دستوری طور پر پابند ہیں اور انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وزیر قانون نے دستور کا حوالہ دیتے ہوئے ریاستوں کو نہ صرف پابند کرنے کی کوشش کی بلکہ بالواسطہ طور پر ڈرانے کی کوشش کی ہے۔ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاج اور عوامی جذبات کی پرواہ کئے بغیر مودی حکومت اپنے ایجنڈہ پر عمل آوری چاہتی ہے جو درحقیقت سنگھ پریوار کا ایجنڈہ ہے۔ کیرالا ، مغربی بنگال اور کانگریس زیر اقتدار ریاستوں نے شہریت قانون پر عمل آوری سے انکار کردیا جبکہ بعض دیگر حکومتوں نے پارلیمنٹ میں متنازعہ قانون کی تائید کی لیکن عوامی جذبات کو دیکھتے ہوئے این آر سی پر عمل نہ کرنے کا اعلان کیا۔ شہریت قانون کے خلاف نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے متنازعہ قانون کی مخالفت کی ۔ ملک بھر میں 20 سے زائد افراد نے غیر دستوری قانون کے خلاف احتجاج میں اپنی جان نچھاور کردی ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت عوامی احتجاج کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے قانون سے دستبرداری اختیار کرتی۔ برخلاف اس کے دستور کی آڑ میں ریاستوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جمہوریت میں عوام کی حکومت ، عوام کی منتخب حکومت اور عوام کیلئے حکومت کا نعرہ لگایا جاتا ہے لیکن نریندر مودی حکومت خود کو عوام کی اور عوام کیلئے حکومت کے بجائے سنگھ پریوار کی قائم کردہ حکومت تصور کر رہی ہے۔ جن دستوری دفعات کا حوالہ دے کر ریاستوں کو شہریت قانون پر عمل آوری کی دھمکی دی جارہی ہے ، اسی دستور کی دفعات 14 اور 15 کا مرکز کے ذمہ دار مطالعہ کریں۔ شہریت قانون دستوری دفعات 14 اور 15 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس طرح ایک غیر دستوری قانون کو دستور کے نام پر نافذ کرنے کا منصوبہ ہے۔ ریاستوںکی جانب سے غیر دستوری قانون کو قبول کرنے سے انکار کس طرح دستور اور قانون کی توہین ہوگی؟ اگر ریاستوں کے اختیارات محدود ہیں تو مرکز بھی دستور اور قانون سے بالاتر نہیں۔ پارلیمنٹ میں ا کثریت کا مطلب یہ نہیں کہ غیر دستوری اور من مانی قوانین وضع کرنے کا لائسنس مل گیا ہو۔ وفاقی نظام میں ریاستوں کی رائے کا احترام ضروری ہے ورنہ ملک جمہوری نظام کے بجائے ڈکٹیٹرشپ اور نراج کے راستہ پر چل پڑے گا۔ یہ پہلا موقع نہیں جب ریاستوں نے مرکز کے قانون کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ بی جے پی کی حکومت نے ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیوں پر بھاری جرمانوں کی گنجائش کے ساتھ موٹر وہیکل ترمیمی قانون منظور کیا لیکن تلنگانہ ، آندھراپردیش ، مہاراشٹرا ، مدھیہ پردیش ، جھارکھنڈ ، مغربی بنگال ، راجستھان کے علاوہ بعض دیگر ریاستوں نے عوام کے مفاد میں مرکزی قانون پر عمل نہیں کیا۔ اس وقت دستور کا حوالہ دے کر ریاستوں کو ذمہ داری یاد نہیں دلائی گئی تھی۔ شہریت قانون چونکہ دستور کے خلاف ہے، لہذا غلطی کی نشاندہی کرنے پر ریاستوں کی ستائش کی جانی چاہئے ۔ موٹر وہیکل ایکٹ سنگھ پریوار ایجنڈہ کا حصہ نہیں تھا ، لہذا مرکز نے خاموشی اختیار کرلی ۔ شہریت قانون کے پس پردہ مخالف مسلم عزائم کارفرما ہیں ، لہذا ریاستوں کو دھمکایا جارہا ہے ۔ ریاستوں کو دستور نے متنازعہ قوانین کے خلاف عدالت سے رجوع ہونے کا اختیار دیا ہے ۔ غیر دستوری قانون کی مخالفت کرنا ریاستوں کا حق ہے اور انہیں دھمکانا بی جے پی حکومت کا اوور ایکشن ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مخالف شریعت اور مخالف مسلم قوانین کی منظوری کے لئے امت مسلمہ کی بے حسی ذمہ دار ہے۔ طلاق ثلاثہ ، کشمیر سے 370 کی برخواستگی اور بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ مسلمانوں کا امتحان تھا لیکن قوم اور اس کی قیادت خواب غفلت کا شکار رہی جس کے نتیجہ میں بی جے پی کی ہمت بڑھ گئی اور شہریت قانون کو منظوری دی گئی۔ اگلا نشانہ مسلمانوں کی شہریت ختم کرنا جس کے لئے این پی آر اور این آر سی کا سہارا لیا جائے گا۔ اگر مسلمان اب بھی نہیں جاگیں گے تو اسپین کی طرح مٹادیئے جاؤگے۔ کیا ہم درج فہرست اقوام سے بھی گئے گزرے ہیں جنہوں نے سڑکوں پر آکر مودی حکومت کو ایس سی تحفظات کے خلاف قانون سازی سے روک دیا۔ کیا ہم میں ٹاملناڈو کے عوام کی طرح ہمت اور جذبہ نہیں جن کے احتجاج نے مرکز کو سپریم کورٹ کے جلی کٹو پر امتناع کے فیصلہ کو قانون سازی کے ذریعہ بے اثر کرنے پر مجبور کردیا ۔ ٹامل عوام جب ایک رسم اور روایت کی برقراری کیلئے مرکز کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں تو ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت شہریت ، مذہبی تشخص اور شناخت کے تحفظ کیلئے آخر کب بیدار ہوگی۔ اگر مسلمان جاگ جائیں تو مودی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجاسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر غفلت کا شکار قوم کو جگائے تو آخر کون ؟
مودی حکومت نے دستور پر حلف لیا تھا لیکن عمل آوری سنگھ پریوار کے نظریات پر کرنا چاہتی ہے۔ شہریت قانون میں مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی سازش کی گئی ، جو ملک کے مذہبی رواداری اقدار کی خلاف ورزی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مخالف شہریت قانون احتجاج میں ہندو برادران وطن شانہ بشانہ شرکت کر رہے ہیں۔ مودی کا کوئی بھی قدم اچانک اور بے وجہ نہیں ہوتا ۔ ہر فیصلہ کے پس پردہ کچھ مقاصد ضرور ہوتے ہیں۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ ملک کی معاشی بدحالی سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے شہریت قانون کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ عوام کو بنیادی مسائل کے بجائے متنازعہ امور میں الجھانے کی کوشش ہے تاکہ حکومت کے خلاف احتجاج نہ ہو۔ کیرالا اور مغربی بنگال میں شہریت قانون کی مخالفت کی سزا کے طور پر اگر صدر راج نافذ کیا جائے تو کوئی حیرت نہیں ہوگی۔ ایسے وقت جبکہ ملک بھر میں سیکولر اور انصاف پسند طاقتیں متحدہ طور پر شہریت قانون اور این آر سی کی مخالفت کر رہی ہیں، چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر کو اپنے مفادات کی تکمیل کی فکر ہے۔ انہوں نے دو دن میں حکومت کا موقف واضح کرنے کا مسلم مذہبی رہنماؤں کو تیقن دیا تھا لیکن 10 دن گزرنے کے باوجود آج تک سناٹا برقرار ہے۔ مخالف شہریت قانون جلسہ میں شرکت کے لئے دو وزراء کو ہدایت دی گئی تھی لیکن وہ بھی غیر حاضر رہے ۔ حکومت کی تائید کرنے والی مذہبی اور سیاسی جماعتیں چیف منسٹر کی خاموشی پر خاموش ہیں۔ دراصل انہیں سرکاری عہدوں پر برقراری کی فکر ہے جو انتخابات میں تائید کے عوض ملے تھے۔ شہریت قانون توکجا شریعت کے خلاف کے سی آر کی بی جے پی کو تائید کے باوجود بھی مسلم مذہبی جماعتوں کے نمائندے سرکاری عہدوں کی قربانی دینے تیار نہیں ہوئے۔ چیف منسٹر سے ملاقات مسلمانوں کو خواب غفلت میں مبتلا کرنے کی سازش ہے۔ جب شریعت کے معاملہ میں سرکاری عہدہ نہیں چھوڑا گیا تو ایسے عناصر سے شہریت قانون پر عہدوں کی قربانی کی توقع کرنا فضول ہے۔ مرحوم خلیل اللہ حسینی ایسے افراد کو گنبد اقتدار کے کبوتر اور دسترخوان اقتدار کی پھینکی ہوئی ہڈیاں کہا کرتے تھے۔ نریندر مودی نے کانگریس اور مخالف شہریت قانون جماعتوں کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف مظالم پر احتجاج منظم کریں۔ مودی کو اپنے گھر میں اقلیتوں کی حالت سے زیادہ پاکستان کے اقلیتوں کی فکر ہے کیونکہ وہاں کی اقلیتیں غیر مسلم ہیں۔ مودی اپنے گھر میں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں ، اس کا محاسبہ کریں۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے گجرات میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی۔ مرکز میں برسر اقتدار آنے کے بعد 6 برسوں میں لو جہاد ، گھر واپسی، گاؤ رکھشا اور دیگر عنوانات سے ہجومی تشدد سے ان گنت مسلمانوں کو شہید کیا گیا ۔ مخالف شہریت قانون احتجاج کے دوران اترپردیش پولیس کے مظالم اور ہلاکتیں دنیا کے سامنے ہے لیکن مودی نے ان واقعات کی مذمت اور اموات پر افسوس کا اظہار تک نہیں کیا۔دراصل مودی اور ان کے ساتھیوں کے نزدیک ہندوستان کی مسلم اقلیت ظلم سہنے کیلئے ہے۔ دوسری طرف ظلم کے خلاف فیض احمد فیض کی نظم نے حکومت کے ایوانوں کو دہلادیا ہے ۔ بی جے پی قائدین کی نیند اڑگئی ہے اور اس نظم کو مخالف ہندوستان قرار دیا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ پاکستان میں جنرل ضیاالحق کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف لکھی گئی تھی۔ اردو زبان کا اثر بی جے پی اور سنگھ پریوار کی صفوں میں ہلچل پیدا کرچکا ہے ۔ اگر عوام اس نظم پر عمل کرنے لگ جائیں تو پھر حکومت کا تخت و تاج خطرہ میں پڑ جائے گا۔ علامہ اقبال نے کچھ اس طرح مشورہ دیا تھا ؎
وطن کی فکر کرناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں