وہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں ہے

   

بابری مسجد ملکیت مقدمہ … فیصلہ سے قبل اشتعال انگیز بیانات
Eموہن بھاگوت … آئینہ دیکھنے تیار نہیں

رشید الدین

ملک میں جارحانہ فرقہ پرستی کے رجحان میں تیزی سے اضافہ، جمہوریت اور سکیولرازم کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ آر ایس ایس، بی جے پی اور سنگھ پریوار نے ماحول کو اس قدر زہر آلود کردیا ہے کہ عدم رواداری میں اضافہ ہوگیا ہے۔ وہ دور نہیں رہا جب فرقہ پرستی کا زہر اُگلنے والا کو سماج میں حاشیہ پر رکھا جاتا تھا لیکن آج ماحول بدل چکا ہے۔ سماج کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے والوں کی پذیرائی کی جارہی ہے۔ اتنا ہی نہیں مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو دیش بھگت قرار دینے والی سادھوی کو عوام نے 2 لاکھ سے زائد ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب کیا۔ ہندوستان جو دُنیا بھر میں اپنی مذہبی رواداری اور ’’کثرت میں وحدت‘‘ کیلئے شہرت رکھتا ہے، آج نفرت کو اس قدر گھول دیا گیا کہ ایک مخصوص طبقہ برائی کو برائی تسلیم کرنے تیار نہیں۔ یوں تو سابق میں بھی اسی طرح کے نظریات کے حامل افراد رہے، لیکن ان کی تعداد کم تھی۔ 2014ء میں مرکز میں نریندر مودی حکومت کے قیام اور امیت شاہ کے بی جے پی صدر بننے کے بعد منظم انداز میں نفرت کے سوداگروں نے نوجوان نسل کی ذہن سازی کی اور یہ تاثر پیدا کیا کہ ملک ہندوؤں کا ہے اور دوسرے برابر کے حصہ دار نہیں بلکہ کرایہ دار ہیں۔ عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرتے ہوئے ’’ہندوراشٹر‘‘ کے قیام کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اسی ایجنڈہ پر مودی حکومت کاربند ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک کے عوام کی اکثریت اسی پروپگنڈہ کا شکار ہوگئی۔ آج بھی عوام کی اکثریت کو دستور پر اٹوٹ ایقان ہے اور وہ ملک پر تمام مذاہب کے ماننے والوں کے مساوی حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے افراد کی خاموش اکثریت ہے، لیکن جارحانہ فرقہ پرستی کے پرچارکوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے جس کے نتیجہ میں وہ بے قابو ہیں۔ حکومت اور سنگھ پریوار کی ہمت اور حوصلہ افزائی نے انہیں بے لگام کردیا اور کوئی بھی شریف آدمی اُن سے الجھنے تیار نہیں۔ مودی کی پہلی میعاد میں ہندوتوا کے ایجنڈہ پر عمل آوری کا آغاز ہوا جبکہ دوسری میعاد میں حکومت کے تمام تر فیصلے دہلی سے نہیں بلکہ ناگپور ہیڈکوارٹرس سے صادر ہورہے ہیں۔ دستور اور قانون کی پرواہ کئے بغیر حکومت کے اندر اور باہر کے قائدین دل آزار بیان بازی کررہے ہیں۔ ہندوتوا کا جادو اس قدر سَر چڑھ کر بول رہا ہے کہ انہیں احساس تک نہیں رہا کہ دستور ِ ہند پر حلف اُٹھانے کے بعد کیا پابندیاں ہوتی ہیں۔ دہلی سے لے کر ریاستوں تک نفرت کے سوداگروں کی سرگرمیوں کا عین مقصد مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کرتے ہوئے احساس کمتری کا شکار کرنا ہے تاکہ وہ خود کو ’’دوسرے درجہ کا شہری‘‘ تصور کریں۔ اس مہم کی کمان موہن بھگوت اور امیت شاہ نے سنبھال رکھی ہے۔ حوصلوں کو پست کرتے ہوئے ہندو راشٹر کے قیام کے سلسلے میں مخالفت کو روکنا ہے۔ ملک کی انصاف پسند، ترقی پسند اور سکیولر طاقتوں کے لئے ایک امتحان کی گھڑی بابری مسجد اراضی کے متعلق مقدمہ ہے۔ سپریم کورٹ نے 18 اکتوبر تک سماعت مکمل کرتے ہوئے چار ہفتوں میں فیصلوں سنانے کی بات کہی تھی، لیکن اب تازہ اطلاعات کے مطابق جاریہ ماہ کے اواخر میں فیصلہ آسکتا ہے۔

عدالتی کارروائی کے دوران حکومت میں شامل افراد، بی جے پی قائدین اور ہندو فریقوں کے بیانات تشویش کا باعث ہیں۔ عدلیہ کا احترام اور توہین عدالت کی پرواہ کئے بغیر امکانی فیصلے کے بارے میں مختلف دعوے کئے جارہے ہیں۔ کسی نے کہہ دیا کہ فیصلہ رام مندر کے حق میں آئے گا تو بعض نے ایک قدم آگے بڑھ کر عدالت کی غیرجانبداری پر سوال کھڑا کردیا۔ ملک ہمارا اور عدالت بھی ہماری کا نعرہ لگایا گیا۔ صرف یہ کہنا باقی ہے کہ ججس بھی ہمارے ہیں۔ توہین عدالت پر سپریم کورٹ کی خاموشی نے حوصلوں کو بلند کردیا ہے۔ اُترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے ابھی سے خوشخبری اور ایودھیا میں چراغاں کا اعلان کردیا۔ یوگی کیا پہلے سے فیصلے کے بارے میں جانتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ خوشی کے موقع پر چراغوں میں روشنی کی جاتی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کن بنیادوں پر اس طرح کے دعوے کئے جارہے ہیں؟ اس طرح کے بیانات پر سپریم کورٹ کی خاموشی سے شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ اگر یہی بات کسی مسلم فریق کی جانب سے کی جاتی تو ہنگامہ کھڑا ہوجاتا۔ اب تو ایک نئے انداز میں بعض نام نہاد دانشور طبقہ کو میدان میں اُتارا گیا جو مسجد کی اراضی ’’گفٹ‘‘ کرنے کا شوشہ چھوڑ چکے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ مسجد کی اراضی پر کسی انسان کا حق نہیں ہوسکتا جو کہ وہ کسی کو گفٹ کردے۔ اپنی اراضی میں بھائیوں کا حصہ دینے کیلئے لوگ تیار نہیں لیکن اللہ کے گھر کی اراضی بہ آسانی کسی کو گفٹ کرنے کی بات کررہے ہیں۔ دراصل اس طرح کے بیانات عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے کہ مسلمان اراضی کو مندر کیلئے حوالے کرنے تیار ہیں۔ اس طرح عدالت کو شواہد اور ثبوت کے بجائے ’’آستھا‘‘ کی بنیاد پر فیصلہ کرنے میں سہولت ہوگی۔
بی جے پی اور سنگھ پریوار کی بے خوف سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں ہندوتو ایجنڈے پر عمل آوری کی کتنی جلدی ہے۔ سکیولر اور انصاف پسند جماعتوں اور تنظیموں کیلئے یہ صورتحال کسی چیلنج سے کم نہیں۔ آخر کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں جن سے فرقہ پرستوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے سے روکنے کا لائحہ عمل کیا ہے۔ حکومت اور برسراقتدار پارٹی میں عدم رواداری کا یہ عالم ہے کہ تنقید اور تجویز کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ جو بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھائے، مقدمات اور جیل اس کے منتظر ہیں۔ جن لوگوں کو اپنی کارستانیوں کے سبب جیل میں ہونا چاہئے، وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے ’’انتقامی جذبہ‘‘ کے ساتھ دوسروں کو جیل بھیج رہے ہیں۔ حقوق انسانی کے جہد کاروں اور سماجی کارکنوں کا عملاً تعاقب کیا جارہا ہے تاکہ وہ حکومت کے خلاف آواز اُٹھانے کی ہمت نہ کریں۔ آر ایس ایس کے سرسنچالک موہن بھاگوت جن کے ہاتھ میں مودی حکومت کا ریموٹ کنٹرول ہے، آخر کار اپنے من کی بات زبان سے کہہ دی۔ ہندوستان کو ہندو راشٹر اور ہجومی تشدد کی اصطلاح کے بارے میں ان کا بیان ہر سکیولر ہندوستانی کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ موہن بھاگوت نے اپنے منصوبوں کو واضح کردیا کہ آر ایس ایس کس طرح ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ بھاگوت کو ہجومی تشدد سے متعلق لنچنگ کی اصطلاح پر اعتراض ہے اور انہوں نے اسے عیسائیوں کی مقدس کتاب ’’بائبل‘‘ کی دین قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھاگوت کو مختلف عنوانات سے بے قصور مسلمانوں کی ہلاکتوں کا کوئی افسوس نہیں بلکہ وہ لنچنگ کی اصطلاح سے دنیا بھر میں ہندوستان کی بدنامی پر فکر مند ہیں۔ اگر کسی بے قصور اور نہتے شخص کو گھیر کر ہلاک کردیا جائے تو موہن بھاگوت بتائیں کہ اسے سنسکرت میں کیا کہیں گے۔ اگر لنچنگ سے اختلاف ہے تو انہیں کم از کم سنسکرت کی اصطلاح سے مسلمانوں کی ہلاکتوں پر افسوس کرنا چاہئے۔ دراصل لنچنگ اور دیگر واقعات نے ملک کے چہرہ کو عالمی سطح پر اس قدر بگاڑ دیا ہے کہ موہن بھاگوت آئینہ دیکھنے تیار نہیں۔ کیونکہ اگر وہ آئینہ دیکھتے ہیں تو ان کے دامن پر بے قصوروں کے خون کے دھبے دکھائی دیں گے۔ موہن بھاگوت کی زہر افشانی کے بعد اب وہ لوگ کیا کہیں گے جو ان سے خفیہ ملاقات کے بعد بغلیں بجا رہے تھے۔ جس تنظیم کے قیام کا مقصد ہی اسلام اور مسلمانوں کی دُشمنی ہے،

اس سے تبدیلی کی اُمید کرنا عبث ہے۔ ایک مذہبی رہنما نے بھاگوت سے ملاقات کی، تو دوسرے نے اس کے جواب میں امیت شاہ کے دربار میں حاضری دی۔ موہن بھاگوت ہو کہ امیت شاہ ان دنوں دونوں میں تقاریر کے سلسلے میں مسابقت دکھائی دے رہی ہے۔ ہریانہ اور مہاراشٹرا کی انتخابی مہم میں امیت شاہ نے نریندر مودی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ انہوں نے انتخابی مہم میں فرقہ وارانہ نظریات کو اُچھال کر ہندوؤں کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے اور یہی سلسلہ انتخابی مہم کے اختتام تک جاری رہے گا۔ این آر سی پر ملک بھر میں عمل آوری اور پھر مسلمانوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنا اصل نشانہ ہیں۔ کشمیر سے دفعہ 370 کی برخاستگی کو کارنامہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جبکہ وہاں کی صورتحال فلسطین سے کم نہیں۔ جس طرح فلسطین کے حالات اور فلسطینیوں پر مظالم سے دنیا بے خبر ہے، کچھ یہی حال کشمیری عوام کا ہے۔ کشمیر میں خاردار تاروں کے ذریعہ ناکہ بندی ، اسرائیل سے درآمد کردہ ہے۔ موہن بھاگوت اور امیت شاہ کی تقاریر پر مسلم سیاسی اور مذہبی تنظیموں اور قائدین مہر بہ لب ہیں۔ آخر وہ مصلحت کا شکار ہیں یا پھر اپنے اپنے انجام سے خوف زدہ ہیں۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مسلمان ، تنظیموں اور قائدین پر تکیہ کئے بغیر خود اپنے قوتِ مزاحمت پیدا کریں۔ ملک کا دستور دنیا بھر میں بے مثال ہے۔ جہاں اظہار خیال اور مذہب اور مسلک پر چلنے کی مکمل آزادی ہے۔ یہ آزادی دنیا میں کہیں نہیں ملے گی اور یہی ہندوستان کی خوبی ہے۔ اس آزادی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ناانصافیوں کے خلاف آواز اُٹھائی جاسکتی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کو کچھ اس طرح جگانے کی کوشش کی ہے:
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
وہ سب باقی ہیں ، تو باقی نہیں ہے