ٹرمپ نے بر صغیرکو جلنے سے بچایا : شکیل شمسی

,

   

امریکہ سے ملنے والی خبروں سے اب اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ پلوامہ میں ہندوستان کے نیم فوجی دستے کی ایک بس پر خود کش حملہ ہونے کے بعد بر صغیر کے دو پڑوسیوں کے مابین جو کشیدگی پیدا ہوئی تھی وہ جنگ میں تبدیل ہونے سے اس لئے بچ گئی کہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس میں ذاتی طور پر دلچسپی لی تھی ۔ اب جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر میزائل داغنے کا پروگرام بنایا تھا ۔ حالانکہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان یہ بات کہہ چکے تھے کہ دونوں ملکوں نے ایک دوسروں پر میزائل مارنے کی تیاری کر لی تھی ،لیکن اس بات کا یقین کسی نے نہیں کیا تھا ۔ اب میزائل برسانے کی تیاری ہو جانے کی تصدیق کرتے ہوئے امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹس نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان بھڑکنے والی آگ کو بجھانے کا کام دوسرے ممالک کے تعاون کے ساتھ امریکی حکام نے کیا تھا۔ امریکی ذرائع کے حوالہ سے رائٹرس نے بتایا کہ دونوں ملکوں نے جو میزائل تعینات کئے تھے ان میں ایٹمی ہتھیار نہیں بلکہ روایتی ہتھیار تھے ، یعنی ان سے عام تباہی کا خطرہ نہیں تھا ۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس میں ایک دوسرے کو سخت نقصانات پہونچنے والے تھے ۔
امریکہ سے ملنی والی خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ مائک پمپو اور صدر ٹرمپ کے معتمد خاص اور قومی سلامتی کے مشیر جان بلٹن نے دونوں ممالک کے درمیان جنگی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے بہت اہم رول ادا کیا ۔ ہمیں لگتا ہے کہ امریکہ کہ بر صغیر کے معاملہ میں اتنی گہری دلچسپی کا سبب یہ تھا کہ سعودی عرب کے جانب سے امریکہ پر بہت دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ پاکستان کو تباہی پر لے جانے والی اس جنگ کو روکے۔سچ جو بھی ہو مگر اس بات کا انکار کیا نہیں جا سکتا کہ جس نے بھی جنگ ٹلوایا ان دونوں ملکوں کی عوام کو اب انکا شکریہ اداکرنا چاھیئے ۔کیوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ اس بار ۱۹۶۵ یا ۱۹۷۱ کی جنگوں کی جیسی نہیں تھی بلکہ بے انتہاہ تباہ کن ہوتی ،ہتھیاروں کے ڈورے نے اس خطہ میں ایسے حالات پیدا کئے گئے ہیں کہ بر صغیر کے کئی شہر صفحہ ہستی سے ناپید ہو سکتے ہیں ۔ اس لئے امریکہ کے جنگ کو ٹلوانے کی کوشش کو خیر مقدم کرنا چاھیئے ۔ اصل میں دونوں ہی ممالک میں ایسے عناصر موجود ہیں جو مسلسل کوشش کرتے رہے ہیں کہ جنگ ہو جائے ۔
جنگ پسند طبقہ کے جانب سے ہر وقت اپنی حکومتوں پر دباؤ بنایا جاتا رہا ہے کہ فورا جنگ چھڑ دیں انسانوں کی زندگی کے اطلاف سے یہ بے پروہ طبقہ اس بات پر ہر وقت امادہ رہتا ہے کہ اگر دہشت گردی کی آگ کو بجھانے کے لیے خون کی برسات کرنی پڑے توکی جائے ۔ادھر دہشت گردوں کی کوشش بھی یہ رہتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بھڑک جائے تاکہ وہ اس آڑ میں اپنی کاروائی لو اسانی سے پورا کر سکیں ۔مگر آفسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جو دہشت گرد اس سرحدوں کے پا رکر کے ہندوستان کے علاقوں میں جاتے ہیں وہ کشمیر میں جس قسم کی حکومت کا قیام چاہتے ہیں اسی قسم کی حکومت پاکستان میں لانا چاہتے ہیں سب جانتے ہیں کہ جمہوریت کا تصور دہشت گردوں کے نزدیک حرام ہے اس لئے اگر عمران خان اور دوسرے پاکستانی حکمران یہ سمجھتے کہ وہ کشمیر کو حاصل کرنے کے بنعد کامیابی سے رہیں گے تو وہ احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں ۔ ہمارے خیال میں بہتر تو یہی ہوگا کہ پاکستانی حکومت دہشت گردوں کو مجاھد کہنا چھوڑ دیے ، ان تک پہونچنے والی رقومات کو روک دے ،ہتھیاروں کے سپلائی پر قد وغن لگائے اور کشمیر کے معاملہ کو حل کرنے کے لئے ماحول بنائے ۔مسائل کو گفتگو سے حل کیا جاتا ہے ،دہشت گردی سے آج تک نہ کوئی مسئلہ کاحل نکلا ہے اور نا نکلے گا ۔ پاکستانی حکومت اس بات پر خوش ہونا بھی چھوڑ دیں کہ ایک بار پھر مسعود اظہر کو چین نے عالمی دہشت گرد بننے نہیں دیا ، کیونکہ مسعود اظہر کی نیک نامی کا باعث نہیں ہے بلکہ ذلت اور رسوائی کے باعث ہے ۔
(سیاست نیوز)